لاہور: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے صاف پانی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ کیوں نہ یہ معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھجوا دیا جائے کہ 15 دن میں معاملے کی مکمل انکوائری کر کے دیں۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے صاف پانی از خود نوٹس کیس کی سماعت کی اور عدالت عظمیٰ نے صاف پانی کرپشن اسکینڈل میں پراسیکیوٹر جنرل نیب کو 14 اپریل کو طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران صاف پانی کی فراہمی پر تشکیل کردہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کی رپورٹ کو مسترد کر دیا۔

مزید پڑھیں: ’عوام کی صحت حکومتی ترجیح نہیں، شہباز شریف کو تصاویر چھپوانے کا زیادہ شوق ہے‘

چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب سب کا ہوگا اور قوم کی ایک ایک پائی وصول کروں گا۔

اس سے قبل چیف سیکریٹری پنجاب نے صاف پانی کمپنی میں 400 کروڑ کے اخراجات کا اعتراف کیا اور عدالت کو بتایا کہ منصوبے پر 400 کروڑ لگنے کے باوجود شہریوں کو ایک قطرہ بھی پانی میسر نہیں آیا۔

چیف سیکریٹری کا مزید کہنا تھا کہ صاف پانی کمپنی میں معاملات اوپر جانے کی بجائے نیچے آتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: صاف پانی کیس میں شہباز شریف طلب

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب تک یہ عدلیہ ہے کوئی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی، انہوں نے استفسار کیا کہ زعیم قادری کے بھائی عاصم قادری اور بیگم عظمی قادری کو کس اہلیت پر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا گیا؟

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 14 لاکھ روپے دے کر سرکاری ملازمین کو نوازا جا رہا ہے تاکہ کسی موقع پر ان سے بھی کام لیا جا سکے، اتنے اخراجات اشتہاری مہم پر خرچ کر دیئے گئے لیکن منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوا، یہ قوم کا پیسہ ہے اور واپس قومی خزانے میں جائے گا۔

سابق سی ای او صاف پانی وسیم اجمل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلی پنجاب کی ہدایات پر مقامی ماہرین کو ہٹا کر بیرون ملک سے ماہرین بلائے گئے تھے، وزیر اعلی پنجاب نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود صاف پانی کمپنی سے متعلق احکامات دیئے۔

مزید پڑھیں: 'کراچی میں سہولیات کے لیے اقدامات اٹھا لیے، اب لاہور کی باری ہے'

خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے صوبہ پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کی عدم فراہمی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی۔

رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے صاف پانی از خود نوٹس میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو طلب کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں