شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کا آج 90 واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔

9 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیارپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے منیر نیازی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بھارتی بحریہ میں بھرتی ہوئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر واپس آگئے۔

قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات و ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور آپ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی بھی تھے۔

آپ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے اور اردو میں ان کے 13 شعری مجموعے شائع بھی ہوئے، جن میں تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کلیات منیر کی اشاعت بھی ہوئی، جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے جبکہ پنجابی زبان میں بھی ان کے 3 شعری مجموعے شائع ہوئے۔

منیر نیازی سرتاپا شاعر تھے اور حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ان کو صرف شاعری کے لیے پیدا کیا تھا۔

ان کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا، اِسی لیے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے۔

جیسے یہ غزل:

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو

کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

انہیں فلمی شاعر کہا جاتا تو وہ برا مان جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں جتنی پائے کی غزلیں ملتی ہیں ان میں بیشتر منیر نیازی کی ہی ہیں۔

منیر نیازی کو 1992 میں پرائڈ آف پرماننس جبکہ 2002 میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا،تاہم شاعری کا یہ سلسلہ 2006 میں رک گیا اور اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی 26 دسمبر 2006 کو خالق حقیقی سے جاملے۔

تبصرے (0) بند ہیں