کراچی: رات گئے سٹی کورٹ میں اچانک آگ لگنے سے مال خانے کی پوری عمارت جل کر خاکستر ہوگئی جبکہ اس کے ساتھ موجود ریکارڈ روم میں عدالتی ریکارڈ بھی جل گیا۔

کراچی کے سٹی کورٹ میں 10 اور 11 اپریل کی درمیانی شب اچانک کورٹ کے مال خانے میں آگ بھڑک اُٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے مال خانے کی پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

آگ کی اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کا عملہ موقع پر پہنچا، تاہم مال خانے میں موجود اسلحہ، گولیاں اور بارودی مواد آگ کی شدت سے پھٹنا شروع ہوگیا، جس کی وجہ ریسکیو آپریشن کو روک کر تمام رضاکاروں کو سٹی کورٹ کے احاطے سے باہر نکال دیا گیا اور مال خانے میں موجود بارودی مواد کے دھماکوں سے علاقہ لرزتا رہا۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ، ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر اور ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان سمیت دیگر اعلیٰ پولیس حکام موقع پر پہنچے۔

میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ مال خانہ برطانیہ دور کا تعمیر کردہ تھا تاہم آگ پر مکمل قابو پانے کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آسکیں گے۔

مزید دیکھیں: کراچی سٹی کورٹ میں منشیات کا کھلےعام استعمال

آگ کی شدت کو دیکھتے ہوئے شہر بھر کی فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو طلب کیا گیا، جنہوں نے چھ گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پالیا۔

چیف فائر افسر تحسین صدیقی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مال خانے میں گولیاں اور دھماکا خیز مواد ہونے کی وجہ سے دھماکے ہوئے۔

رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ سیشن ججز کے ہمراہ مال خانے کا دورہ کیا اور آتشزدگی کے واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا۔

اطلاعات کے مطابق آگ کے باعث ریکارڈ روم بھی نہ بچ سکا اور اہم دستاویزات بھی جل کر خاکستر ہوگئیں جبکہ کچھ فائلیں زمین پر بکھری ہوئی تھیں۔

دوسری جانب جنرل سیکریٹری کراچی بار ایسوسی ایشن اشفاق علی گلال نے سٹی کورٹ کو بند رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج عدالتی کارروائی نہیں ہوگی۔

آتشزدگی کی وجہ سے مال خانے میں موجود راکٹ لانچر بھی چل گیا، جو اس وقت سٹی کورٹ میں ہی پڑا ہے، تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے مال خانے میں اب بھی راکٹ لانچر موجود ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: سٹی کورٹ کے مال خانے میں دھماکا

کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ یہ آگ لگی ہے یا لگائی گئی ہے، اس سلسلے میں تحقیقات کے بعد ہی پتا لگے گا۔

چاروں ضلعوں کے کیس پراپرٹی اس مال خانے میں موجود ہوتے ہیں، تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کیس پراپرٹی جلنے سے سنگین نوعیت کہ مقدمات پر اثر پڑے گا۔

کراچی بار کے صدر حیدر امام رضوی نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات ایک حاضر سروس جج سے کرائی جائیں۔

ادھر سٹی کورٹ کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جب تک مال خانے کی عمارت کو کلیئر قرار نہیں دیا جاتا تب تک نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔

انچارج جنوبی مال خانہ اے ایس آئی محمد شکیل مرزا نے میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مال خانے میں دستی بم، خود کش جیکٹیں، ڈھائی سے 3 من تک کھلا بارود اور 100 سے زائد راکٹ لانچر کے گولوں سمیت بال بم ایمونیشن بڑی تعداد میں موجود تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ قبل مال خانے کی ڈی ایس پی سعید رند نے انسپکشن کی تھی اور انہوں نے اپنی رپورٹ میں مال کانے سے سامان کو ہٹانے، نیا مال خانہ بنانے، اور خاص طور پر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے مقدمات کی پراپرٹی ہٹانے کی سفارشات کیں تھیں۔

خیال رہے کہ سٹی کورٹ کے مال خانے میں اس سے پہلے بھی آتشزدگی کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں