رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

مجھے لکڑی کا وہ فرش یاد ہے۔ یہ قابلِ فہم ہے کیوں کہ چھوٹے بچے فرش سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور میں بھی اس وقت چھوٹی بچی تھی۔ وہ میری امّی اور میرے جڑواں بھائی کے بغیر اس دنیا سے میرا پہلا واسطہ تھا، اور یہ ماما پارسی گرلز سیکنڈری اسکول سے شروع ہوا۔

مجھے اپنا پہلا دن یا اپنی کہی ہوئی باتیں یا کی گئی حرکات یاد نہیں، مجھے صرف یہ یاد ہے کہ میرے نئے جوتوں سے کلاس کے فرش پر آواز پیدا ہوتی۔ ٹیچر وہی تھیں جنہوں نے میری والدہ کو بھی پڑھایا تھا، اور وہ کلاس روم کے بالکل شروع میں بہت دور کھڑی معلوم ہوتیں۔

پہلی اپریل 2018ء کو میرے اسکول ماما پارسی گرلز سیکنڈری اسکول کے 100 سال مکمل ہوئے۔ ایک ایسے دور میں جہاں ہر چیز بہت مختصر دورانیے تک محدود ہوگئی ہے، وہاں اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر اس پختہ عمر کو پہنچنا نہایت حیران کن ہے۔ اسکول آتے اور جاتے رہتے ہیں؛ ایک نسل، حتیٰ کہ ایک بھائی یا بہن کے لیے بھی جو چیز ہوتی ہے، وہ دوسرے تک آتے آتے ختم ہوچکی ہوتی ہے؛ گھر اور عمارتوں میں نئے لوگ آکر رہنے لگتے ہیں۔ کراچی ایک تیز رفتار شہر ہے اور یہاں کے اسکول اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔

1918ء میں جمشید نصروانجی مہتا کا قائم کیا گیا ماما پارسی اسکول ایک ملک سے دو ملک، اور پھر پاکستان کو حاصل علاقے سے ایک اور ملک کا قیام دیکھ چکا ہے۔ یہ فوجی آمروں اور جمہوری حکومتیں، کرفیو اور لسانی قتل و غارت کے ادوار سے گزر چکا ہے۔ یہ ایک نئے صدی میں داخل ہوکر اپنی ایک صدی مکمل کرچکا ہے۔ اسکول کا نصب العین ’عاجزی، امداد، یقین اور محنت ہمارے راستے کی روشنی بنیں‘ اسکول کی نیلی نوٹ بکس پر کندہ ہوتا تھا، اور اس سے اس مخصوص عاجزی نے جنم لیا جس کا اظہار ہم نے گزشتہ ہفتے کی تقریبات میں دیکھا۔

سادہ اور ہنگامے خیزی سے عاری، ایک سفید اور نیلے رنگ کا کیک، ہر طالبِ علم کے لیے دعا اور گہرے خیالات کے ساتھ پھول اس تقریب کا سامان تھے۔ ایسے دور میں جہاں عظیم الشان اور سنسنی خیز چیزوں کے بغیر کام نہیں چلتا ہے، یہاں تک کہ اسکول، بالخصوص امیر طبقے کے اسکول ایک دوسرے سے تعلیم کے بجائے تفریح کے میدان میں مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ (میرے گھر کے پاس ایک اسکول باقاعدگی سے بلند آواز موسیقی کے پروگرام منعقد کرتا ہے جو دیر رات تک جاری رہتے ہیں)، وہاں ایسا رکھ رکھاؤ اور پرسکون پروگرام روایات سے ہٹ کر ہے۔

مگر یہ ماما پارسی کی روایت تھی بھی نہیں، نہ تب جب میں اسکول میں تھی، اور نہ تب جب میری والدہ اسکول جاتی تھیں۔ ہم سب، چاہے جس قد، کاٹھ، پس منظر، مذہب، فرقے، زبان سے تعلق رکھنے والے ہوں، وقفے کے دوران کچھ بھی کھاتے ہوں، مگر اسکول کے اندر ہم پر ایک ہی قوانین کا ایک ہی سختی سے اطلاق ہوتا تھا۔

قواعد بے تحاشہ تھے۔ اسمبلی میں کس طرح اور کس ترتیب سے کھڑا ہونا ہے، کیسے دروازے ٹھیک 8 بج کر 5 منٹ پر بند ہوجائیں گے، اور کس طرح ایک منٹ کی بھی دیر یا یونیفارم کے کسی بھی حصے کی عدم موجودگی یا بے ترتیبی ہمیں اس ماہ حاصل کیے گئے مارکس کے ایک بڑے حصے سے محروم کردے گی۔

کچھ قواعد، جیسے کہ مہندی پر پابندی (کسی بھی صورت میں رعایت نہیں) سے ہمیں سخت چڑ تھی، خاص طور پر چاند رات جب آتی تو گھر میں سب مہندی لگواتے، مگر ماما پارسی اسکول کی طالبہ اپنے ہاتھوں پر خوبصورت نقش و نگار نہیں بنوا سکتی تھی۔ نیل پالش، بالیاں (سادہ سونے کی یا چاندی کے بٹنوں کے علاوہ) لمبے ناخنوں، یا سیاہ رنگ کے علاوہ بالوں کے بینڈز یا پن وغیرہ پر پابندی عائد تھی۔

بچپن کی یادوں میں بلاشبہ خوبصورت لمحات بھی محفوظ ہوتے ہیں جو ماضی کے درد اور سخت لمحات کو بھلانے میں مدد دیتے ہیں۔ تنگ کرنے والی ٹیچر، تھکا دینے والے لیکچر یا کلاس 7 کے اسپورٹس ڈے یا کلاس 4 کی پارٹی کے بعد غیر منصفانہ الزام اب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

میں اس ادارے اور اس کے اساتذہ (مِس طاہر اور مِس رومر) اور پرنسپل (مسز ماول والا) کی شکر گزار ہوں جنہوں نے سب سے پہلے مجھے لکھنے کے لیے ترغیب دی اور جنہوں نے مجھے بہترین لکھاری ہونے پر سب سے پہلے انعامات دیے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اولین تعریف ساری زندگی آپ کا ساتھ نبھاتی ہے، خاص طور پر اگر یہ آپ کے اساتذہ کی جانب سے ہوں کیوں کہ وہ آپ کے والدین کے برعکس آپ کے حق میں جانبدار نہیں ہوتے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر یہ خواتین میری زندگی میں نہ ہوتیں، تو آپ کے سامنے یہ کالم بھی نہ ہوتا۔

پاکستان کی بنیاد فرق پر رکھی گئی ہے اور آزادی سے لے کر اب تک ہم اس فرق کی محبت میں گرفتار اور اس کے ہاتھوں یرغمال رہے ہیں۔ ہمارا فرق اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کیا ہوگا، کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ طبقے کا فرق، فرقے کا فرق، ذیلی فرقوں کا فرق، جغرافیائی تعلق کی بناء پر فرق، زبان کی بناء پر فرق اور ہر طرح کے فرق وہ بنیاد ہیں جو ہمارے درمیان گروہ بندی کا سبب بنتے ہیں۔

اس سب کے دوران ماما پارسی گرلز اسکول نے یکسانیت کا ماحول پیدا کیا جہاں میرٹ کی بنیاد آپ کی گاڑی کی قیمت یا آپ کے رشتے داروں کا عہدہ یا آپ کا اکثریتی یا اقلیتی برادری سے ہونا نہیں تھا، بلکہ میرٹ صرف یہ تھی کہ آپ نے تعلیمی کامیابی کے لیے کس قدر محنت کی ہے، کتنی کوشش کی ہے اور آپ اس کے لیے کتنے پُرعزم ہیں۔

اس کے ہالز میں ہم پر ہمیشہ ایک ہی طرح کے قوانین کا اطلاق ہوتا، ہمیں ایک ہی معیار پر پرکھا جاتا اور اسی تناسب سے انعامات دیے جاتے۔ مرد ویسے تو پاکستان میں ہر چیز کے مالک ہیں مگر ماما پارسی اسکول میں انہیں باہر رکھا جاتا تھا، اور نتیجتاً ہر لڑکی کو سکھایا جاتا کہ کوئی بھی لڑکی جو کوشش کرتی ہے، وہ ہر مضمون میں، ہر کھیل میں، ہر غیر نصابی سرگرمی میں مہارت حاصل کرسکتی ہے اور اسے کرنی بھی چاہیے۔

پاکستان میں اس اخلاقی قدر کی بے حد ضرورت ہے۔ شخصیت کی سادگی اور میرٹ کی بالادستی پر یقین، ہمارے درمیان موجود فرق کے بجائے ہمارے اندر موجود ایک جیسی چیزوں کو ابھارنے پر یقین۔ ان سب اصولوں کو ناممکن قرار دے کر مسترد کردینا نہایت آسان ہے، مگر کراچی کے علاقے صدر کے بیچوں بیچ ایک اسکول میں ان اصولوں پر 100 سال سے عمل جاری ہے۔


یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں