کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے دائر آئینی درخواستوں پر پولیس اور محکمہ داخلہ کی جانب سے پیچیدہ رپورٹس پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ایک ماہ میں جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

جسٹس آفتاب احمد گوہر کی سربراہی میں لاپتہ افراد کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران ڈویژن بینچ کی جانب سے متعلقہ پولیس حکام کو خبردار کیا گیا کہ اگر وہ لاپتہ افراد کے کیسز میں مکمل تفتیش کا ساتھ پیش ہونے میں ناکام رہے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

سماعت کے دوران جسٹس آفتاب احمد گوہر کی جانب سے گمشدہ شخص یاسین جبار کے حوالے سے دقیانوسی رپورٹ جمع کرانے پر پولیس کے تفتیشی افسر کی سرزنش کی گئی۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد بازیابی کیس: سندھ ہائی کورٹ کا پولیس کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم

اس دوران جج کی جانب سے خبر دار کیا گیا کہ لاپتہ افراد کیس میں بوگس رپورٹ جمع کرانے والے پولیس افسر کو معطل بھی کیا جاسکتا اور’ ان کی تنخواہیں روک کر ہی ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے‘۔

جسٹس آفتاب گوہر نے ریمارکس دیے کہ پولیس حکام کی جانب سے لاپتہ افراد کا پتہ لگانے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے اور وہ ان معاملات میں ہمیشہ غیر موثر طریقے سے کام انجام دیتے ہیں۔

اس موقع پر عدالت کی جانب سے سندھ پولیس کے سربراہ، ڈائریکٹر جنرل آف رینجرز، متعلقہ ڈی آئی جیز اور دیگر حکام کو ایک ماہ کے اندر اپنا جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

دوران سماعت عدالت میں ایک مارچ سے لاپتہ شمون یعقوب کی گمشدگی کا معاملہ بھی زیر غور آیا، عدالت کو بتایا گیا کہ نوجوان کیمیکل کمپنی کا ملازم اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا رہائشی تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اسے گھر سے لے جایا گیا تھا۔

اس دوران ایک اور درخواست گزار شہناز بی بی نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چھاپے کے دوران ان کے بہنوئی کو فیڈرل بی ایریا سے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے اہل خانہ نے علاقہ پولیس اور دیگر اعلیٰ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کیا لیکن انہیں ان کے بہنوئی کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں دی گئی۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ متعلقہ حکام کو حکم دیں کہ وہ ان کے بہنوئی کو بازیاب کرائیں اور عدالت کے سامنے پیش کریں۔

راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس مقابلوں کی تحقیقات کیلئے درخواست

عدالت میں سماعت کے دوران بینچ نے محکمہ داخلہ اور پولیس کی جانب سے معطل ایس پی راؤ انوار کے مبینہ پولیس مقابلوں میں 250 افراد کے قتل پر غیر جانبدرانہ تحقیقات کی درخواست پر جواب جمع نہ کرانے پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کے جرائم کی تفصیلات پیش کی جائیں: سپریم کورٹ

خیال رہے کہ ایڈووکیٹ مزمل ممتاز میو راجپور کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ وہ 1992 سے راؤ انوار کی سربراہی میں ’ جعلی مقابلوں‘ میں 250 افراد کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کرے۔

اس دوران عدالت نے متعلقہ اداروں کی جانب سے جواب داخل نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنا جواب جمع کرائیں۔


یہ خبر 12 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں