چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے پاکستان ریلویز میں 60 ارب روپے خسارے کے حوالے سے لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے پاکستان ریلوے میں ہونے والے خسارے کے حوالے سے رپورٹ پیش کردی جبکہ چیف جسٹس نے آڈٹ کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق عدالتی حکم پر پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’خواجہ صاحب روسٹرم پر آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لے کر آئیں‘، جس پر سعد رفیق نے چیف جسٹس کو کہا کہ یہ بیان آپ کے لیے نہیں تھا سیاسی مخالفین کے لیے تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا ریلوے کے 60 ارب روپے خسارے پر از خود نوٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم ابھی آپ کی ساری تقریروں کا ریکارڈ منگواتے ہیں اور خسارے کا بھی۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب آپ نے مجھے یاد کیا تھا جس پر چیف جسٹس نے انھیں جواب دیا کہ ہم نے یاد نہیں کیا تھا حکم دیا تھا کہ آپ پیش ہوں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ وقت چلا گیا جب عدالتوں کا احترام نہیں کیا جاتا تھا۔

خواجہ سعد رفیق نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے بولنے کی اجازت دی جائے۔

وزیر ریلوے کی استدعا پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے اتنا جارحانہ انداز نہ اپنائیں، یہ سپریم کورٹ ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ وہ جارحانہ انداز نہیں اپنا رہے بلکہ اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے استفسار کیا کہ جب تک عدالت نہیں کہے گی آپ چپ رہیں گے جس پر خواجہ سعد رفیق نے چیف جسٹس سے بیٹھنے کی گزارش کی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں جب تک ہم کہیں گے آپ یہیں کھڑے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں پاکستان ریلوے کو 20 ارب 60 کروڑ روپے کا نقصان

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اگر مجھے نہیں سننا تو پھر میں چلا جاتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ چلے جائیں ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ آپ جس نیت سے آئے ہیں وہ ہم جانتے ہیں۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ غلط فہمی ہے جو میں دور کرنا جاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ اداروں کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی آپ کی عزت بھی نہیں کرے گا۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میں نے عدلیہ کے لیے جیل کاٹی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو دوبارہ بھی جیل ہو سکتی ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے عدالت کو بتایا کہ ریلوے کی آمدنی 50 ارب اور خسارہ 35 ارب کے قریب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریلوے میں نقصانات کی بہت ساری وجوہات ہیں، آپ آڈٹ کروائیں گے تو ہماری کارکردگی سے مطمئن ہو جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ جس رفتار سے ہم کام کر رہے ہیں اور 12 سال بعد ریلوے بہترین ادارہ بن جائے گا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت آپ کو انتخاب لڑے بغیر 12 سال کے لیے ریلوے کا وزیر مقرر کر ے؟

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے میرٹ پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیگل کو ریلوے میں تعینات کیا، چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ بتائیں ان کے بھائی کن کن عہدوں پر ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے چیف جسٹس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ایک بھائی رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) اور ایک ہائی کورٹ کے جج ہیں۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے ، اسٹیل ملز اور ریلوے کا خسارہ 705 ارب روپے

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کے بعد آپ مزید کوئی بات نہ کریں، اگر آپ کسی عام آدمی کو ڈی جی لیگل تعینات کرتے تو ہم سمجھتے کہ میرٹ پر تعیناتی کی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر آپ اچھا کام کریں گے تو شاباش بھی دیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے پاکستان ریلوے کا مکمل آڈٹ کروانے کا حکم جاری کر دیا۔

’میں ضیا کے ساتھیوں میں شامل نہیں‘

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے باہر خواجہ خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب میں وزیر ریلوے بنا تب 30 ارب کا خسارہ تھا اور آمدنی 18 ارب تھی جبکہ آج ریلوے 50 ارب کی آمدنی کر رہا ہے اور 35 ارب کا خسارہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ریلوے میں اپنی پوری جان لگا دی ہے۔

وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ میری سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ملک میں جتنی آمریتیں آئیں میرے خاندان نے ان کا سامنا کیا، میں ضیا کے ساتھیوں میں شامل نہیں۔

انھوں نے چیف جسٹس کے لوہے کے چنے کے حوالے سے دیے گئے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوہے کے چنے والا بیان سیاسی مخالفین کے لیے تھا، کسی ادارے کے لیے نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام اداروں کے احترام پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارا بھی احترام ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ 16 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایم این اے شیخ روحیل اصغر کی جانب سے پاکستان ریلویز کے نقصانات کے حوالے سے پوچھے گئے تحریری سوال پر ریلوے حکام نے جواب دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جولائی 2017 کے بعد سے نقصانات میں اضافہ ہوا اور اگست 2017 تک یہ خسارہ 40 کروڑ 34 لاکھ سے بڑھ کر 3 ارب روپے تک پہنچ گیا۔

پاکستان ریلوے نے اپنے جواب میں بتایا تھا کہ 2 ماہ بعد اکتوبر 2017 میں یہ منافع 3 ارب 41 کروڑ اور دسمبر 2017 تک یہ 4 ارب 3 کروڑ تک جا پہنچا تھا جبکہ خسارہ سب سے زیادہ صرف جنوری میں 3 ارب 20 کروڑ روپے دیکھا گیا۔

خیال رہے کہ ریلوے کے کل بجٹ 90 ارب روپے کا 62 فیصد صرف تنخواہوں اور پینشنز کی مد میں خرچ ہوتا ہے تاہم اس کو کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں