واشنگٹن: اقوامِ متحدہ میں امریکا کی سفیر نکی ہیلے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکا اس وقت بھر پور تیار ہے، اگر شامی حکومت نے دوبارہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی تو دمشق پر دوبارہ حملہ کردیا جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار نکی ہیلے نے روس کی درخواست پر منعقدہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران کیا۔

سی بی ایس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ’جب ہمارے صدر ایک آخری حد بناتے ہیں تو وہی اسے نافذ بھی کرتے ہیں‘۔

نکی ہیلے کا کہنا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے فضائی حملے کی شکل میں ایک پیغام ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کو شام میں حملے کے نتائج بھگتنا ہوں گے، روس

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا بشار الاسد کی حکومت کو شامی عوام پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ادھر امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے کہا تھا کہ ’میرا پیغام روس کے لیے یہ ہے کہ آپ تاریخ میں غلط جگہ پر تھے‘۔

لاطینی امریکا کے ملک پیرو میں اپنے دورے کے دوران مائیک پینس نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں عندیہ دیا کہ شام کی صورتحال کا ذمہ دار کہیں نہ کہیں ایران بھی ہے۔

شام پر امریکا اور اتحادیوں کا حملہ

یاد رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب امریکا کی جانب سے اپنے اتحادی برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر شام پر حملہ کیا گیا تھا جبکہ اس حملے کا جواز شامی صدر بشارالاسد کی جانب سے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو بنایا گیا تھا۔

امریکا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے حکام کی جانب سے شام میں حملے کے دوران اہداف کی نشاندہی کی گئی تھی اور اس میں عام شہریوں کی کم سے کم اموات کی کوشش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور اتحادیوں کا شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات پر حملہ

ادھر پینٹاگون میں جیمز میٹس، برطانوی اور فرانسیسی فوجی افسران کی مشترکہ نیوز کانفرنس میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں مغربی شام کے 3 خاص حصوں کو نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ دمشق میں پہلا ہدف سائنسی ریسرچ سینٹر، دوسرا ہدف حمص کے مغرب میں قائم کیمیائی ہتھیاروں کا گودام اور تیسرا ہدف کمیائی ہتھیاروں کے سامان کو رکھنے کی جگہ فراہم کرنے والے ایک خاص کمپاؤنڈ پوسٹ کو بنایا گیا۔

روس کا ردِ عمل

تاہم شامی ٹیلی ویژن نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ شامی ایئر ڈیفنس پہلے سے ہی فعال تھا اور اس نے امریکا اور اس کے اتحادی افواج کے کئی حملوں کو ناکام بنایا۔

شامی مسلح افواج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہفتے کی رات کو مقامی وقت 3 بج کر 55 منٹ پر امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے 110 میزائل سے حملے کیے گئے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ نے شام میں کیمیائی حملے کا ڈرامہ رچایا:روس

انہوں نے کہا تھا کہ شامی ڈیفنس سسٹم نے متعدد میزائلوں کو ناکام بنا دیا لیکن کچھ میزائل نے برزاہ میں ریسرچ سینٹر سمیت متعدد مقامات کو نشانہ بنایا۔

اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ شامی حکومت کے خلاف کارروائی ہمارے اور اتحادی افواج کے حوصلے پست نہیں کریں گے اور ہم شام میں دہشت گرد گروپوں کو ختم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے‘۔

’شام پر حملہ کامیاب رہا‘

برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے شام پر حملے کے حوالے سے کہا تھا کہ شام کے خلاف کارروائی کامیاب رہی اور کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔

تھریسامے کا کہنا تھا کہ شام میں کارروائی کے دوران کوشش کی گئی کہ جانی نقصان سے بچا جائے اور ان حملوں کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے اور بنکرز کو نشانہ بنایا گیا، جو یہ حملہ کامیاب رہا۔

یہ بھی پڑھیں: شام پر حملہ: مشن کامیابی سے تکمیل کو پہنچا، ٹرمپ

ادھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتحادی کے ساتھ مل کر شام میں کیے گئے حملے کو کامیاب کارروائی قرار دے دیا جبکہ اس حملے کے بعد روس اور اس کے اتحادی کے ساتھ سرد جنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔

امریکی صدر نے ٹویٹر میں اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 'گزشتہ شب ایک مکمل کارروائی کی گئی، فرانس اور برطانیہ کو ان کی دانشمندی اور ان کی بہترین فوجی طاقت پر شکریہ ادا کرتا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس سے بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا تھا، مشن تکیمل کو پہنچا!‘

تبصرے (0) بند ہیں