امریکا کی وزرات خزانہ نے مشکوک زرِ مبادلہ کی پالیسی پر بھارت کو کرنسی واچ لسٹ میں شامل کردیا، اس فہرست میں بھارت اور چین کے علاوہ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔

امریکی وزارت خزانہ کی جاری رپورٹ کے مطابق واچ لسٹ میں ان تمام بڑے کاروباری شراکت داروں کو شامل کیا گیا ہے جن کی کرنسی پالیسی توجہ طلب ہے۔

اس ششماہی رپورٹ میں کانگریس نے بھارت کے علاوہ ان پانچ ممالک کا نام بھی شامل کیا، جو اکتوبر سے مذکورہ فہرست میں موجود تھے، ان میں چین، جرمنی، جاپان، کوریا اور سوئزر لینڈ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں : بھارت کا براستہ ایران چاہ بہار افغانستان سے تجارت کاآغاز

کرنسی واچ لسٹ میں شامل تجارتی شراکت داروں میں سے کوئی بھی تجارتی فائدے کے لیے کرنسی کو کنٹرول نہیں کرسکا لیکن فہرست میں شامل 5 ممالک کرنسی پالیسی کے 3 میں سے 2 معیار پر پورا اترے جبکہ چین کو امریکا کے تجارتی خسارے میں غیر مناسب شرح کی وجہ سے شامل کیا گیا۔

امریکی سرکاری ڈیٹا کے مطابق امریکا کا عالمی تجارتی خسارہ 556 ارب ڈالر ہے جس میں 337 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ صرف چین سے متعلق ہے۔

امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منچن کا کہنا تھا کہ ہم غیر منصفانہ زر مبادلہ سے نمٹنے کے خلاف جنگ اور نگرانی جاری رکھیں گے جبکہ بڑے تجارتی عدم توازن کے لیے اصلاحات اور پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے'۔

وزارت خزانہ کی اس رپورٹ کو کانگریس نے طلب کیا تھا تاکہ ایسے ممالک کی شناخت کی جاسکے جو تجارتی فائدے کی خاطر اپنی کرنسی کی قیمت کو مصنوعی طور برقرار کرتے ہیں، جس کا مقصد زرمبادلہ کی کم شرح اور سستی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا سے تجارت میں بھارت کو 23 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، 'بھارت کے زرمبادلہ میں سال 2017 کی پہلی تین سہ ماہیوں میں اضافہ دیکھا گیا‘ اور ساتھ ہی بھارتی روپے کی قدر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا: چینی مصنوعات کی درآمدات پر 60 ارب ڈالر کے محصولات عائد

چین کو امریکا کے ساتھ تجارتی تنازعے کی وجہ سے واچ لسٹ میں شامل کیا گیا، اس حوالے سے وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ 'چین کی کرنسی عام طور پر ڈالر کے مخالف سمت کی جانب جارہی تھی، جس کی وجہ سے امریکا کو چین کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی'۔

جرمنی کو بھی واچ لسٹ میں رکھا جائے گا کیونکہ جرمنی یورپی یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے آزادانہ طور پر یورو کا ایکسچنچ ریٹ کنٹرول نہیں کرسکتا۔


یہ خبر 15 اپریل 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں