اسلام آباد: عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں قلیل مدتی اقتصادی نقطہ نظر کے لیے میکرو اکنامک استحکام کو شدید خدشات لاحق ہیں اور بیرونی اور اندرونی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے قلیل مدتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک نے اپنی ’جنوبی ایشیائی اقتصادی رپورٹ ‘ میں بتایا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن میکرو اکنامک عدم توازن بڑھ رہا ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ذخائر کی موجودہ سطح پر ادائیگیوں کا توازن مسلسل کمزور ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی معاشی صورتحال مستحکم ہوئی، ورلڈ بینک کا اعتراف

عالمی بینک کی رپورٹ میں اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ ’آئندہ عام انتخابات سے انتخابات کے بعد تک فیصلہ کن پالیسی کے حل میں تاخیر متوقع ہے، اس کے علاوہ حکومت کو درمیانی مدت میں اپنے ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنے اور مسابقتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2018 میں شرح نمو 5.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے تاہم عام انتخابات کے بعد متوقع پالیسی کے تحت میکرو اکنامک عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لیے 2019 میں ترقی کی رفتار سست ہوسکتی ہے لیکن 2020 میں ترقی دوبارہ بہتر ہو کر 5.4 فیصد تک پہنچنے کا امکان موجود ہے۔

اقتصادی صورتحال پر توجہ دیتے ہوئے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ترقیاتی منصوبوں، بجلی کی رسد میں اضافہ اور نجی شعبے کی کھپت میں مسلسل تیزی کے باعث شرح نمو 2018 میں 5.8 فیصد تک پہنچنا متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘آئی ایم ایف، عالمی اور ایشین بینک بھی امریکا کے ہتھیار ہیں‘

اقتصادی صورتحال کے اندازے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا جائے گا لیکن یہ اعتدال میں رہیں گی اور انہیں سیاسی اور سیکیورٹی خطرات سے منظم کیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ برقرار رہنے کا امکان ہے جبکہ مالی سال 2019 کے دوران تجارتی خسارہ ایک بلند سطح تک بڑھنے کا امکان ہے، اس کے علاوہ ایکسچینج ریٹ لچک میں اضافے سے درآمدات اور برآمدات میں 2019 میں کمی بھی متوقع ہے۔

تاہم ترسیلات کے ذریعے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو مالی امداد جاری رہے گی لیکن گلف کارپوریشن کونسل (جی سی سی) ممالک میں ترقی کی شرح میں کمی تارکین وطن کے روزگار اور ترسیلات میں اضافے پر اثر انداز ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)، کثیر الجہتی، دو طرفہ اور نجی قرضوں کا بہاؤ وسط مدت میں اہم تجارتی ذرائع بننے کا امکان ہے اور بیرونی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو بین الاقوامی مارکیٹوں تک رسائی جاری رکھنی پڑے گی۔

مزید پڑھیں: پاکستانی معیشت کی حالت اب بہتر ہے، مفتاح اسمٰعیل

عالمی بینک کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 2019 میں افراط زر بڑھنے کا امکان ہے اور یہ 2020 میں بھی جاری رہے گا اور قیمتوں میں اضافے کی شرح بڑھے گی اور بین الاقوامی طور پر تیل کی قیمتوں میں بھی معتدل اضافہ متوقع ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے کچھ درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے سے درآمدات میں کمی ہوئی اور دسمبر 2017 میں ایکسچینج ریٹ میں 5 فیصد اور مارچ 2018 میں 4 فیصد کمی ہوئی جبکہ پالیسی انٹرسٹ ریٹ جنوری میں 25 بی پی ایس بڑھ گیا۔

اس کے باوجود جون 2017 میں بین الاقوامی ذخائر 16 ارب 10 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں فروری کے اختتام تک 12 ارب 2 کروڑ ڈالر پر آگئے اور حکومت نے ذخائر میں کمی روکنے کے لیے نومبر 2017 میں ڈھائی ارب روپے کے بین الاقوامی بونڈز بھی جاری کیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں