چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے گزشتہ 3 ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے مالک میرشکیل الرحمٰن کو 17 اپریل کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ ملازمین کی تنخواہیں کیوں نہیں دی گئیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن بتائیں کہ ملازمین کو تنخواہیں ادا کیوں نہیں ہوئیں جبکہ مالک کو کفالت کا حق ادا کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے میڈیا کمیشن کیس کے درخواست گزار اور جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میرے خلاف جو شکایت کرنی ہے کریں لیکن عدالت کے سامنے جوابدہ ہوں کہ ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہیں ادا کیوں نہیں کی گئیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حامد میر سے سوال کیا کہ آپ ماہ وار کتنی تنخواہ وصول کرتے ہیں، جس پر حامد میر نے کہا کہ میری تنخواہ بھی 3 ماہ سے نہیں آئی۔

مزید پڑھیں: ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے جیو کے پروگرام کا ٹرانسکرپٹ طلب

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ 52 لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں جس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ تمام چیزیں جھوٹ پر مبنی ہیں۔

چیف جسٹس نے حامد میر کو واضح کیا کہ عدالت کے پاس ان کی تنخواہ کے حوالے سے ریکارڈ موجود ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ایک رپورٹر ادارے کا اثاثہ ہوتا ہے، جس کی خبروں پر اینکر حضرات پروگرام کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے حامد میر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ان صحافیوں کے لیے بھی آواز اٹھائیں، میرے پاس کچھ رپورٹرز ملنے آئے تھے اور ان کا کہنا تھا 12 ہزار روپے تنخواہ ہے جو 3، 3 ماہ تک نہیں ملتی‘۔

انہوں نے حامد میر سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ کیا 12 ہزار روپے میں گھر کا بجٹ بن سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: ’وزارتِ اطلاعات یا پیمرا نے جیو نیوز کی بندش کے احکامات نہیں دیئے‘

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پہلے میر شکیل الرحمٰن کو عدالت میں طلب کرکے پوچھا جائے گا کہ جیو نیٹ ورک میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں گزشتہ 3 ماہ سے کیوں نہیں دی گئیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اگر حامد میر کو 3 ماہ کی تنخواہ نہیں ملی تو ان کی مرسڈیز کیسے چلے گی؟

چیف جسٹس ثاقب نثار نے میڈیا کمیشن کیس میں چیئرمین پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی تعیناتی کے لیے قائم کمیٹی سے وزیرِ مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا نام نکالتے ہوئے کہا کہ مریم اورنگزیب بیانات دینے میں مصروف ہوں گی تو کمیٹی کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کی منظوری سے چیئرمین پی بی اے، نمایاں صحافیوں اور پیمرا ممبران پر مشتمل 7 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو چیئرمین پیمرا کے لیے 3 ممبران کے پینل کا انتخاب کرے گی اور یہ کام 3 ہفتوں میں مکمل کرلیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پیمرا کے لیے ’صاف ستھرا‘ شخص آنا چاہیے، عدالت پیمرا پر حکومت کا کنٹرول ختم کرنا چاہتی ہے، اور یہ خواہش ہے کہ یہ ادارہ مکمل طور پر آزاد ہو۔

مزید پڑھیں: پاک فوج پر’ادارہ جاتی کرپشن‘کا تبصرہ:جیو نیوز کو 10لاکھ کا جرمانہ

جسٹس شیخ عظمت نے غلط اور جھوٹی خبروں سے متعلق پیمرا قوانین کے حوالے سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا کے قوانین کا آرٹیکل 5 بہت واضح ہے، حکومت کو اس کے اختیارات کو استعمال کا حق ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ملائیشیا میں جھوٹی اور بے بنیاد خبر کو فوجداری جرم بنا دیا گیا ہے۔

میڈیا کمیشن کیس میں درخواست گزار اینکر پرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ ہم حکومتی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کررہے، ہم نے بس حکومت کے سامنے چند شرائط رکھی ہیں کہ کیسے چیئرمین پیمرا اور بورڈ کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ جس دن نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آیا، اس دن خواتین نے عدالت کے باہر عدلیہ مردہ باد کے نعرے لگائے، ان خواتین کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا، ہمت ہے تو خود سامنے آئیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بہت سے کاموں میں صبروتحمل سے کام لے رہے ہیں، لاہور میں ریلوے کیس کے دوران لالو پرساد کا نام لیا تو طلعت حسین نے آسمان سرپر اٹھا لیا۔

صحافی اسد کھرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کے خلاف تحقیقات قومی احتساب بیورو (نیب) سے کرائی جائیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ اگر نیب این آئی سی ایل سمیت دیگر اداروں کی کرپشن پر تحقیقات کرسکتا ہے تو پیمرا کے خلاف کیوں نہیں کرسکتا۔

عدالت نے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں