لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے عدلیہ مخالف اور توہین آمیز تقاریر کو نشر کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے فیصلے پر سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا۔

کچھ تجزیہ کاروں نے اس کی فیصلے کی مخالفت کی تو کچھ نے عدالتی فیصلے کو سراہا جبکہ کچھ ماہرین کی جانب سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر عبوری پابندی عائد

ڈان نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ پیمرا کو جو ہدایات جاری کی گئی ہیں وہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں کیونکہ پیمرا ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کا کام میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا، عدلیہ، قانون سازوں اور ایگزیکٹوز پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے اور اگر اس کو عدلیہ کی ہر بات ماننی پڑ جائے تو اس سے اس کی غیر جانب داری متاثر ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ عدلیہ کے پاس توہین عدالت کے تحت کارروائی کرنے کا اختیار موجود ہے اور اس قسم کے معاملات کو اسے خود نمٹنا چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما نعیم الحق نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی افواج یا عدلیہ یا قومی اداروں کے خلاف تقاریر پر پابندی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے ریاست کو نقصان پہنچتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: نواز شریف کے وکیل کا بینچ کے جج پر اعتراض

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور نواز شریف اس آگ میں تیل چھڑکنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نواز شریف کی آگ لگانے کی کوشش قابو میں آجائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کا کام ہے کہ میڈیا میں پاکستان کی ساکھ اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والے بیانیے کو روکے اور یہ کام ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز صاحبان نہیں کرسکتے۔

سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کئی سوالیہ نشان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کے پیش نظر پیمرا کو تعین کرنا ہے کہ تقاریر میں سے کونسا حصہ چل سکتا ہے اور کیا روکا جائے گا جو اس کے لیے سب سے مشکل ترین کام ہوگا۔

مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: نواز شریف، مریم نواز سے 15 مارچ تک جواب طلب

انہوں نے بتایا عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کی جاسکتی ہے اگر اس پر بھی پابندی لگا دی جائے گی تو اس سے اظہار خیال کی آزادی متاثر ہوگی۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما زاہد خان کا کہنا تھا کہ آئین کے فیصلوں پر تنقید کا اختیار ہونا سب سے اہم مسئلہ ہے تاہم عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے گالم گلوچ نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے بتایا کہ اگر پیمرا کو اختیار دیا گیا تو وہ کیسے اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا درست اور کیا غلط ہے۔

انہوں نے بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) الطاف حسین کی تقاریر پر عائد پابندی اور آج لگنے والی پابندی کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیوںکہ جس کی بات کریں گے وہ کہے گا کہ اس نے عدالت نہیں بلکہ اس کے فیصلوں پر تنقید کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں