اسلام آباد: پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری نہیں آسکی اور خواتین، اقلیتوں اور صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا جبکہ اسی دوران 63 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی جانب سے 2017 میں پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس عدالتوں نے مجموعی طور پر 5 خواتین سمیت 253 مجرموں کو موت کی سزا سنائی جبکہ 2017 کے پہلے 10 ماہ میں خواتین کے خلاف جرائم کے 5 ہزار 660 کیسز درج کیے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2017 میں خواتین پر جنسی حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا جبکہ اس طرح کے کیسز کی رجسٹریشن میں بڑی حد تک اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن کو لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد پر تشویش

ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پارلیمان نے سال 2016 کی نسبت 2017 میں کم قوانین بنائے اور حکومت نے ایک سال کے دوران کل 34 قوانین منظور کیے۔

رپورٹ کے مطابق صوبائی سطح پر سندھ نے سب سے زیادہ جبکہ خیبرپختونخوا نے دوسرے نمبر پر قانون سازی کی۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے ایک اور منتخب وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹایا گیا، تاہم آرٹیکل 62 کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کو اہم ترین قرار دیا گیا۔

اس کے علاوہ بتایا گیا کہ سال 2017 میں وکیلوں اور ججوں کے درمیان کشیدگی میں شدت آئی اور گزشتہ برس عدالتوں میں 3 لاکھ 33 ہزار 103 مقدمات زیر التوا رہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2017 میں 63 لوگوں کو پھانسی دی گئی، جن میں سے 43 کو سزا فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی تھی جبکہ ان میں سے سوشل میڈیا پر مذہب کی تضحیک کے الزام میں پہلی مرتبہ ایک شخص کو سزائے موت سنائی گئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی جبکہ جیلوں کی بات کی جائے تو ملک کی مختلف جیلوں میں 8 ہزار 395 قیدیوں کی گنجائش کی جگہ پر 10 ہزار 811 قیدی رکھے گئے۔

رپورٹ کے مطابق 2017 میں صحافیوں اور بلاگرز کو دھمکیوں، حملوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ انہیں اغوا بھی کیا گیا جبکہ میڈیا مجموعی طور پر حملوں کا نشانہ رہا۔

اس کے علاوہ 2017 میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں کمی واقع نہیں ہوئی اور لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے توہین مذہب کے قانون کا استعمال جاری رہا جبکہ توہین رسالت کے معاملے پر پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’انسانی حقوق کے مسائل سپریم کورٹ کے ایجنڈے پر سرفہرست‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں سفر کرنے کے حوالے سے دوسرا ناپسندیدہ پاسپورٹ رہا، تاہم حکومت پاکستان نے خواجہ سراؤں کو پاسپورٹ کا اجراء کیا، اس کے ساتھ ساتھ سال 2017 کی مردم شماری میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کا خانہ شامل کیا گیا۔

ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ آئندہ انتخابات کے لیے تاحال ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین کو بطور ووٹر رجسٹر نہیں کیا گیا۔

رپورٹ میں صحت کے مسائل پر بھی اعداد و شمار جاری کیے گئے اور بتایا گیا کہ 2017 میں پاکستان پولیو کی منتقلی کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہا، اس کے ساتھ دنیا بھر میں تپ دق (ٹی بی) کی شرح میں پاکستان سر فہرست رہا۔

اس کے علاوہ تھیلیسیمیا اور ایڈز کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جبکہ ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ میں بھی پاکستان دوسرے نمبر پر رہا۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں 3 کروڑ سے زائد بالغ افراد شوگر کے مرض میں مبتلا رہے جبکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں بھی شامل رہا۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان دنیا بھر میں پانی کے استعمال میں چوتھے نمبر پر ہے اور پاکستان کی 36 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی ہے جبکہ 2025 تک پاکستان کو پانی کے مکمل خاتمے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ اس خطرے کے باوجود کوئی پالیسی اور جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں اسکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ رہی اور پرائمری اسکولوں میں 56 لاکھ جبکہ سیکنڈری اسکولوں میں 55 لاکھ بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں افغان شہریوں کی تعداد 25 لاکھ سے زائد رہی، جس میں 10 لاکھ سے زائد غیر رجسٹر مہاجرین شامل تھے جبکہ 2017 میں پاک افغان تعلقات کے اتار چڑھاؤ کے باعث افغان مہاجرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا انسانی حقوق کی پالیسی جاری رکھنے کا عزم

اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں محصور ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کی تکالیف کے ازالے کے لیے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2017 میں مشتعل ہجوم کے حملوں میں اضافہ ہوا، تاہم دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نومبر 2017 میں فیض آباد کے مقام پر دھرنے کے شرکاء نے راولپنڈی اور اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھا جبکہ حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کا بے جا استعمال کیا گیا، اس کے علاوہ دھرنوں اور ریلیوں سے نمٹنے اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کا فقدان رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں