نئی دہلی: بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی 8 سالہ مسلمان بچی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والے مبینہ 8 ملزمان نے عدالت میں صحت جرم سے انکار کردیا۔

جموں و کشمیر کے ضلع کھٹوعہ میں کشمیری بچی کو اجتماعی ’ریپ‘ کا نشانہ بنائے جانے پر مقبوضہ وادئ اور ہندوستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا۔

مقبوضہ کشمیر میں غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی 8 سالہ مسلمان لڑکی کے ریپ اور قتل کے مقدمے میں 4 پولیس اہلکاروں، مندر کی رکھوالی کرنے والے اور دیگر نامزد ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: کشمیر میں بچی کا ریپ اور قتل مذہبی رنگ اختیار کرگیا

اس مقدمے کے سامنے آنے کے بعد سے یہ معاملہ مذہبی رنگ اختیار کر چکا ہے۔

فروری کے مہینے میں ملزمان کی گرفتاری کے بعد کھٹوعہ میں تمام ملزمان کو آج پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

ملزمان کے وکیل انکر شرما کا کہنا تھا کہ ان کے موکل بے گناہ ہیں اور وہ جھوٹ پکڑنے والے آلے کے ٹیسٹ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری بچی کا ریپ اور قتل: والد کی سپریم کورٹ سے کیس منتقل کرنے کی اپیل

بعد ازاں عدالت کے باہر انکر شرما نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے تمام ملزمان کو چارج شیٹ کی کاپیاں فراہم کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور اگلی سماعت کی تاریخ 28 اپریل مختص کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ جنوری کے مہینے میں لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد نشہ آور چیزیں کھلا کر 5 دن تک مندر کے اندر ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد اس کا گلا دبایا گیا اور بھاری پتھر سے سر پر وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے پولیس کی جانب سے اس واقعے کی تفصیلات منظر عام پر لانے کے بعد پورے بھارت میں مظاہروں کا آغاز ہوگیا ہے۔

مندر کے رکھوالی کرنے والے (ر) عوامی خدمت گزار سنجی رام پر 4 پولیس اہلکاروں، ایک دوست، ان کے بیٹے اور بھتیجے کے ساتھ مل کر ثبوتوں کو مٹانے کا بھی الزام عائد ہے۔

پولیس کو عدالت میں ملزمان کے خلاف چارج جمع کرواتے وقت وکلاء کی جانب سے روکنے کے معاملے پر بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے انصاف میں رکاوٹ ڈالنے پر خبردار کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز متاثرہ خاندان کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے سپریم کورٹ میں پٹییشن دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس کیس کا ٹرائل کسی اور ریاست کی عدالت میں منتقل کیا جائے۔

مزید پڑھیں: کشمیری لڑکی کے ریپ اور قتل کے واقعے نے بھارت کا سر شرم سے جھکا دیا، مودی

متاثرہ خاندان کی وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں، اور اب وہ سپریم کورٹ میں کہیں گی کہ ’میں خطرے میں ہوں، میری جان بچائی جائے‘۔

گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ میڈیا کیس کی رپورٹنگ میں لڑکی کی شناخت کو عیاں نہیں کرے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزراء نے ملزمان کے دفاع میں ایک ریلی میں شرکت کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس سے قبل اتر پردیش میں 17 سالہ لڑکی کی جانب سے ریاستی قانون ساز پر اسے ریپ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جس کی پشت پناہی کرنے پر حکمراں جماعت پر تنقید کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ ایک علیحدہ کیس میں لڑکی کے اہل خانہ کی جانب سے کلدیپ سنگھ سینگار کے خلاف ریپ کے کیس دائر کیے جانے کی کوشش کے بعد اسے گزشتہ ہفتے ہی حراست میں لیا گیا تھا۔

ان دو کیسز نے 2012 میں نئی دہلی میں ایک طالب علم کے بس میں ہونے والے گینگ ریپ اور قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں کی یاد تازہ کردی۔


یہ خبر 17 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں