نئی دہلی: بھارت کی کئی ریاستوں میں ایک بار پھر کرنسی کا بحران پیدا ہوگیا ہے جس نے دو سال پہلے حکومت کی جانب سے نوٹوں پر پابندی کے بعد جنم لینے والے مالی بحران کی یاد تازہ کردی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے بھارتی میڈیا کے حوالے سے کہا کہ وسطی، مشرقی اور جنوبی ریاستوں میں عوام کی بڑی تعداد کو خالی اے ٹی ایمز کے باہر لمبی قطاروں میں کھڑے اور نوٹوں کی کمی کی شکایت کرتے دیکھا گیا۔

تاہم وزیر خزانہ ارون جیٹلے نے تمام خدشات کو مسترد کرتے ہوئے ٹویٹر پر کہا کہ ’ملک میں کرنسی صورتحال کا جائزہ لیا ہے، مجموعی طور پر کافی تعداد میں کرنسی گردش کر رہی ہے اور بینکوں میں بھی دستیاب ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نوٹوں کی عارضی قلت چند علاقوں میں اس کی طلب میں اچانک اور غیر معمولی اضافے کی وجہ سے ہوئی جس پر قابو پایا جارہا ہے۔‘

تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ نوٹوں کی طلب میں اچانک اضافہ کیوں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں 500 اور 1000 کے نوٹوں پر پابندی

کیش کی قلت کی رپورٹس وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے ایسے حساس وقت میں سامنے آرہی ہیں جب فصل کی کٹائی اور دوسری جانب جنوبی ریاست کرناٹکا کے بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں۔

بھارت میں کیش کی ایسی قلت آخری بار اس وقت دکھائی دی تھی جب نریندر مودی نے نومبر 2016 میں ایک حکم کے ذریعے زیر گردش 86 فیصد کیش واپس لینے کا حیران کن فیصلہ کیا تھا۔

یہ اقدام کرپشن کو روکنے اور کالے دھن کے خلاف بڑی کارروائی کے طور پر اٹھایا گیا تھا، جس کی عوام کی بڑی تعداد نے حمایت کی تھی۔

تاہم اس فیصلے کے نتیجے میں عوام کو بینکوں میں نوٹس جمع کرانے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے کی اذیت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بعد ازاں کئی ماہر معاشیات نے متعدد شعبوں میں بیروزگاری بڑھنے کی وجہ بھی اسی فیصلے کو قرار دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں