واشنگٹن: امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ امریکا میں یکم مئی سے پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت ’جوابی طور پر محدود‘ کردی جائیں گی اور انہیں اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے تعینات کردہ مقام پر 40 کلو میٹر کی حدود میں رہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وائس آف امریکا ازبک سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے سیاسی معاملات کے سیکریٹری آف اسٹیٹ تھومس شینن کا کہنا تھا کہ امریکا، یہ سب اس لیے کر رہا ہے کیونکہ اسلام آباد کی جانب سے پہلے ہی اسی طرح کی پابندیاں پاکستان میں امریکی سفارتکاروں پر نافذ کردی گئی ہیں۔

امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر اس طرح کی پابندیاں اپنے طور پر باہمی ہوتی ہیں اور میں اسے ایسے ہی چھوڑ دینا چاہوں گا‘۔

مزید پڑھیں: امریکا اور پاکستان کا اپنے سفیروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا امکان

ایک سوال کے جواب میں سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ہمارے سفارتکاروں پر محدود سفری پابندیاں عائد ہیں لیکن وہ مزید سفر کرسکتے ہیں، جس کے لیے انہیں پاکستانی حکومت کو اطلاع دینی ہوگی‘۔

تھومس شینن کی جانب سے امریکا کے اس فیصلے کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’اس طرح کی چیزیں سفارتکاری میں عام ہیں‘ اور ہمیں اس پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ’یہاں کیا ضروری ہے اور کس چیز پر بات کرنی چاہیے ہمیں علم ہے اور افغانستان میں ہونے والے واقعات پر ہماری پاکستانی حکومت سے بہت اچھی بات چیت ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم وسیع مفاہتی عمل کے ذریعے ایسے لوگوں کی تعمیر کرنے کے قابل ہوجائیں گے، جنہوں نے ہماری مدد کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی نوجوان کی ہلاکت پر امریکی سفیر کی دفتر خارجہ طلبی، احتجاج ریکارڈ

خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو اطلاع دی گئی ہے کہ یکم مئی سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے اور دیگر شہروں میں موجود قونصلیٹ کا عملہ بغیر اجازت کے 40 کلو میٹر سے باہر سفر نہیں کرسکیں گے۔

اس نوٹیفکیشن کے مطابق سفارتکاروں کو 40 کلو میٹر کی حدود سے زیادہ سفر کرنے کے لیے کم از کم 5 روز قبل درخواست دینا ضروری ہوگا۔

امریکی عہدیدار کی جانب سے پاکستانی ہم منصب کو اس بات کی یاد دہانی کرائی گئی کہ اسلام آباد نے پاکستان میں موجود امریکی سفارتکاروں پر بھی اسی طرح کی پابندیاں پہلے سے عائد کررکھی ہے اور انہیں قبائلی علاقوں یا کراچی میں جانے کی اجازت نہیں۔

تاہم پاکستان کی جانب سے امریکا پر زور دیا گیا تھا کہ یہ سب پابندیاں نہیں ہیں بلکہ امریکی سفارتکاروں کو تحفظ دینے کے لیے سیکیورٹی اقدامات ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی ملٹری اتاشی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کیلئے عدالت میں درخواست

اپنے انٹرویو کے دوران تھومس شینن نے مزید بتایا کہ پاکستان کو اپنے ملک میں موجود عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے مزید دباؤ بڑھانا ہوگا۔

انٹرویو کے دوران میزبان کی جانب سے دی گئی تجاویز کہ وسطی ایشیاء کے ممالک چاہتے ہیں کہ امریکا اس معاملے پر پاکستان پر دباؤ ڈالے پر تھومس شینن کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر میں سمجھ سکتا ہوں لیکن ہم صرف بڑے شراکت دار نہیں بلکہ پاکستان کے لیے چین بہت اہم اور بڑا شراکت دار ہے‘۔

انہوں نے کہا اسلام آباد کو چاہیے کہ پاکستان میں باقی رہنے والی عسکریت پسندی پر وسطی ایشیائی ممالک کے تحفظات کو سمجھے اور انہیں دور کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں