اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے سیاسی شخصیات سے متعلق اہم معلومات اور دستاویزات افشاں ہونے اور ان کے میڈیا ٹرائل پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سرزنش کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس (ر) جاوید اقبال نے گزشتہ روز بند کمرہ اجلاس میں پی اے سی کو ریکوڈک منصوبے اور فیڈرل گورنمنٹ ایملائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن (ایف جی ای ایچ ایف) سے متعلق بریفنگ دی۔

یہ پڑھیں: نیب کا 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ

ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب نے مذکورہ امور پر ایک گھنٹے تک بریفنگ دی تاہم اگلے ایک گھنٹے تک وہ پی اے سی کے مختلف سوالوں کا جواب دیتے رہے۔

پی اے سی کے ممبران محمود خان اچکزئی، سید نوید قمر، شریں رحمٰن اور مشاہد حسین سید نیب سے سیاست دانوں سے متعلق میڈیا کو حاصل ہونے والی انتہائی اہم نوعیت کی غیر سرکاری معلومات کے بارے میں سوالات کی بچھاڑ کرتے رہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پی اے سی کا خیال تھا کہ سیاست دانوں سے متعلق افشاں ہونے والی معلومات کے باعث معاشرے میں ان کی ساخت متاثر ہوئی ہے اور سیاستدانوں کے میڈیا ٹرائل کی وجہ سے عدالتی کارروائی سے قبل ہی انہیں مجرم سمجھا جارہا ہے۔

اس حوالے سے ذرائع نے انکشاف کیا کہ جب پی اے سی نے نیب چیئرمین جاوید اقبال سے نیب کے چیک اینڈ بیلنس سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ نیب کے 220 افسران کو کرپشن اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر معطل کیا جا چکا ہے جبکہ 400 افسران کے خلاف انکوائری جاری ہے جبکہ یومیہ تقریباً 100 شکایت موصول ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں نیب کے خلاف قرار داد منظور، قوانین میں ترمیم کا مطالبہ

ذرائع نے مزید بتایا کہ دوران سوال و جواب نیب چیئرمین نے کمیٹی پر واضح کیا کہ نیب کے اختیارات کو صدارتی آرڈینس کے ذریعے محدود کرنے سے بہتر ہے کہ ادارے کو بند کردیا جائے۔

ایک سینیٹر کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ نیب کسی خاص پارٹی یا سیاستدان کے خلاف کام نہیں کررہی، یہ تاثر قطعی غلط ہے تاہم وہ نہ تو کیسی کے دباؤ میں ہیں اور نہ ہی کسی خاص پارٹی کے خلاف خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

کرپشن کے پرانے مقدمات سے متعلق سوال پر جسٹس (ر) جاوید اقبال نے دلائل دیئے کہ بیورو ‘گزشتہ نامکمل کیسز’ کو نپٹانا چاہتی ہے۔

چیئرمین نیب کی میڈیا سے بات چیت

پی اے اسی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ کرپشن کے حجم کی بات تب کی جاتی ہے جب کم ہو، اب حجم سے بات آگے نکل چکی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی اے سی نے نیب کے کام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس وقت کوئی طاقت نہیں جو نیب کی ڈوری ہلا سکے۔

چیئرمین نیب نے ایک مرتبہ نشاندہی کی کہ ’جب کوئی ڈوری ہلائے گا تو بیگ اٹھا کر چلا جاوں گا‘۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن ہونے یا نہ ہونے سے نیب کا کوئی تعلق نہیں، انہوں نے واضح کیا کہ کچھ لوگوں کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہے مزید بھی ہوں گی۔

چیئرمین نیب نے انتقامی کارروائی سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو روکنا ان کا کام نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہے، یہ معاملہ احتساب عدالت میں ہے ان کے جانے پر رائے نہیں دے سکتا، نواز شریف کے واپس نہ آنے کے خدشے کی کوئی بات نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے کرپشن کی ہے تو الیکشن سے پہلے بھی جوابدہ ہیں اور بعد میں بھی جبکہ امتیازی یا انتقامی کارروائی ثابت ہو جائے تو ذمہ داری لوں گا اور عہدہ چھوڑ دوں گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’اپنے دور میں کسی پاکستانی کو دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا‘

انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں موجود مطلوب افراد کی واپسی کے لیے ریڈ نوٹسز جاری کیے گئے ہیں اور آئندہ آنے والے دنوں میں بہت سے مطلوب افراد کو واپس لائیں گے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ہمارا وزیر داخلہ کبھی اتنا با اختیار نہیں کہ لوگوں کو دوسرے ملکوں کے حوالے کر سکے۔

اس موقع پر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ ’پھر یہ اختیار کس کا ہے‘ جس پر چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ یہ بات با اختیار لوگوں سے پوچھیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ سابق وزیر داخلہ اور رکن اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جانب سے 4 ہزار پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا جبکہ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا اعتراف کیا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے قائمہ کمیٹی کے سامنے بتایا تھا کہ پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کے عوض ڈالرز وصول کیے گئے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ پرویز مشرف اور آفتاب شیر پاؤ کے اقدامات کی تحقیقات کروانی چاہیے تھی اور پوچھنا چاہیے تھا کہ آخر کس قانون کے تحت پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا لیکن ان کے خلاف پارلیمان میں آواز نہیں اٹھائی گئی۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں اور خفیہ طریقے سے انہیں غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا اور اس کے عوض ڈالرز وصول کیے گئے۔

اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے آفتاب شیرپاؤ نے کہا تھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ تعداد کہاں سے آئی اور یہ ایک سنگین الزام ہے جو صرف جھوٹ ہے اور کچھ نہیں‘۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے جرائم کی تفصیلات پیش کی جائیں: سپریم کورٹ

انٹرویو کے دوران اس معاملے میں پرویز مشرف کے کردار کے حوالے سے ایک سوال پر آفتاب شیر پاؤ کا کہنا تھا کہ ’11 ستمبر 2001 میں امریکا میں حملے کے وقت وہ وزیر داخلہ نہیں تھے اور جبری گمشدگیوں کے حوالے سے جو بھی سوال ہے وہ پرویز مشرف سے پوچھا جائے کیونکہ وہ اس وقت ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے‘۔

واضح رہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ انہوں نے پاکستانی شہریوں کو امریکا کے حوالے کیا۔

پرویز مشرف کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مختلف عسکریت پسند تنظیموں سے مبینہ تعلقات کے الزام میں گرفتار سیکڑوں افراد سمیت 369 لوگوں کو مانیٹری ایوارڈ کے تبادلے میں امریکا کے حوالے کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں