لبنان سے 500 شامی مہاجرین کی وطن واپسی

18 اپريل 2018
شامی مہاجرین برسوں قبل یہاں پہنچے تھے—فوٹو:اے ایف پی
شامی مہاجرین برسوں قبل یہاں پہنچے تھے—فوٹو:اے ایف پی
معاہدے کے تحت 500 مہاجرین شام واپس جائیں گے—فوٹو:اے ایف پی
معاہدے کے تحت 500 مہاجرین شام واپس جائیں گے—فوٹو:اے ایف پی

شام اور لیبیا کی حکومتوں کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت 500 شامی مہاجرین لبنان کے جنوبی علاقوں سے واپس اپنے ملک روانہ ہوگئے۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کا کہنا تھا کہ وہ شامی مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے باخبر تھا لیکن شام کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے معاہدے میں ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مہاجرین کو لینے کے لیے شام کی جانب سے بھیجی گئیں 15 بسیں شمالی لبنان کے علاقے شیبا پہنچی تھیں۔

وفد میں لبنانی فورسز کے سیکریٹری جنرل بھی ہمرا تھے جو دونوں ممالک کی سرحد میں موجود تھے۔

شام میں خانہ جنگی شروع ہوتے ہی لبنان کے علاقے شیبا میں آکر بسنے والے 500 کے قریب مہاجرین ان بسوں میں سوار ہوگئے جو برسوں سے یہاں رہائش پذیر تھے۔

مہاجرین کو لے جانے والی بسوں کے شیشوں میں شامی صدر بشارالاسد کی تصاویر پر مبنی بڑے پوسٹرز آویزاں کیے گئے تھے۔

لبنان کی قومی نیوز ایجنسی کے مطابق مہاجرین کی واپسی کا عمل جنرل سیکیورٹی کے ساتھ رابطوں کے بعد شروع ہوا ہے جس کے تحت انھیں افراد کو واپس بھیجا جارہا ہے جن کی فہرست پہلے ہی ترتیب دی گئی تھی۔

دوسری جانب شام کی سرکاری نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین دارالحکومت دمشق کے جنوب مغربی علاقے بیت جن منتقل ہوں گے۔

یاد رہے کہ شامی حکومت نے حالیہ مہینوں میں اس علاقے میں ایک معاہدے کے تحت اپنا قبضہ دوبارہ بحال کیا تھا۔

شام میں 2011 سے جاری اس خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں بےگھر ہو کر ہمسائیہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

لبنان میں رجسٹرہونے والے مہاجرین کی تعداد بھی دس لاکھ سے زیادہ تھی جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس کئی گنا زیادہ ہے۔

40 لاکھ کی آبادی رکھنے والے لبنان میں اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے ملک میں پانی اور بجلی کے نظام کو شدید نقصان پہنچا۔

لبنان کی حکومت اور سیاست دانوں کی جانب سے شامی مہاجرین کی واپسی پر زور دیا جاتا رہا تھا لیکن اقوام متحدہ مسلسل خبردار کرتا رہا کہ شام کی صورت حال اس وقت ایسی نہیں ہے جہاں پر مہاجرین کی واپسی ہو اور زندگی کے معمولات بحال ہو۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس بھی اسی طرح کے معاہدے کے تحت شامی مہاجرین اپنے آبائی علاقے عسال الورد واپس آگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں