اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی میں شرکت سے معذرت کے بعد مزید تین پارلیمانی جماعتوں نے ورکنگ گروپ کی رپورٹ کی مخالفت کردی۔

حلقہ بندیوں سے متعلق کام کرنے والے ورکنگ گروپ کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو ملک میں آئندہ عام انتخابات کو موجودہ حلقہ بندیوں کے ساتھ کرانے کی اجازت دے گا۔

خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی زیرِ صدارت منعقد ہوا، جہاں وفاقی وزیرِ نجکاری دانیال عزیز کی سربراہی میں کام کرنے والے ورکنگ گروپ کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ پر بحث کی گئی۔

مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں: ‘الیکش کمیشن نے 300 تجاویز پر کس سے مشاورت کی؟‘

ورکنگ گروپ کی جانب سے تین تجاویز سامنے آئیں جن میں سے پہلی یہ کہ آئینی ترمیم متعارف کرائی جائے جو حال ہی میں ہونے والی صوبائی مردم شماری کے تحت انتخابات کروانے کی ضروریات سے نجات دلا سکے، جس کی وجہ سے آئندہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق منعقد کیے جاسکیں گے۔

دوسری تجویز یہ دی گئی کہ قانون میں حلقہ بندیوں سے متعلق ضابطہ اخلاق کے بجائے اصولوں کو متعارف کروانا چاہیے، جو الیکشن کمیشن سے قوانین میں مداخلت کرنے اور ان کی تعریف بتانے کے اختیارات لے لیں گے۔

ورکنگ گروپ کی رپورٹ میں تیسری تجویز یہ پیش کی گئی کہ حلقہ بندیوں کے عمل کی تحقیقات کروانی چاہیے تاکہ اس عمل میں غفلت برتنے والوں کا تعین کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟

جمعیت علمائے اسلام (ف)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور جماعت اسلامی (جے آئی) کی جانب سے ورکنگ گروپ کی رپورٹ کو مسترد کیا جاچکا ہے۔

خیال رہے کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی پہلے سے ہی ورکنگ گروپ کی مخالفت کرتی آرہی ہیں۔

دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اس بل کو اکثریت سے پارلیمنٹ سے پاس کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے اس نقطہ پر سوال اٹھایا گیا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں سے متعلق اعتراضات کی جانچ پڑتال کر رہا ہے، لہٰذا اسے اپنے مینڈیٹ کے ساتھ اس عمل کو پورا کرنے دیا جائے۔

مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں:وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی نشستوں میں اضافہ

پاکستان تحریک انصاف کے باغی رکن اسمبلی سراج محمد نے اجلاس کے دوران یہ اعلان کرتے ہوئے حیران کردیا کہ انتخابات کو ملتوی کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے، اگر ایسا ضروری ہے تو حلقہ بندیوں میں موجود غلطیوں کو درست کیا جائے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سید اقبال قادری نے اس موقع پر کہا کہ ان کی جماعت کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق اپنے اعتراضات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئی ہیں، جسے عدالت کو 30 روز کے اندر خارج کردینا چاہیے اور اعلیٰ عدلیہ کو صوبوں میں 3 رکنی بینچ تشکیل دینا چاہیے جو ان اعتراضات کے حوالے سے اپیلوں کی سماعت کریں۔

کمیٹی کے چیئرمین مرتضٰی جاوید عباسی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے خط پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے اور اسے کسی بھی طرح سے مداخلت سے تشبیح نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق تنازعات کو خطرہ قرار دے دیا

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حلقہ بندیوں کے عمل میں مجموعی طور پر بے ضابطگیاں ہوئیں، جس سے سیاسی نظام میں موجود مخصوص عناصر کو فائدہ ہوا۔

کمیٹی چیئرمین نے اس بات کا اشارہ دیا کہ پارلیمنٹ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر سکتی ہے، اور مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کے درمیان اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے مزید کچھ اچھا کرنا ہوگا۔

اجلاس کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ورکنگ گروپ کے سربراہ دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں سے متعلق کمیٹی کے 3 ارکان کے ناموں کا اعلان کرنا چاہیے، تاکہ وہ حلقہ بندیوں سے متعلق غفلت کی تحقیقات کر سکیں۔


یہ خبر 19 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں