اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پارلیمان وہ واحد ادارہ ہے جسے قانون سازی کرنے کا حق ہے اور اسے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے کسی ادارے سے مشاورت کرنے کی ضرورت نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے اتنخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سے متعلق عوامی مسلم لیگ کے چیئرمین شیخ رشید احمد اور دیگر کی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات ایکٹ: سینیٹ اور قومی اسمبلی کو فریق بنانے کی درخواست مسترد

اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان سپریم ہے اور قانون سازی کے لیے بااختیار ہے اور عدالت پارلیمان کو اس کے اختیارات سے دور نہیں کرسکتی اور نہ ہی پارلیمان کو یہ ہدایت کرسکتی کہ وہ قانون سازی سے پہلے الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) سے مشاورت کرے۔

خیال رہے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ قانون سازوں کو یہ ہدایت کریں کہ وہ کاغزات نامزدگی میں ایسا خانہ شامل کریں جس میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انتخابی امیدوار اپنی آمدنی کے ذرائع، انتخابی مہم کے اخراجات، دوہری شہریت، خاندان کی تفصیل، زیر التوا کیسز اور مالیاتی اداروں سے حاصل کیے گئے قرض سے متعلق تفصیلات فراہم کرے۔

دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ پارلیمان نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کا مسودہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بغیر تیار کیا، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ انتخابی امیدوار کی معلومات تک رسائی حاصل کریں تاکہ ووٹرز درست فیصلہ کرسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات بل کی آئینی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت حیرت انگیز بات تھی کہ آئندہ عام انتخابات کے قانون کے تحت ان ڈیکلریشنز کو انتخابی فارم سے ختم کردیا گیا جبکہ ہم ووٹرز، جمہوری نظام اور شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ چاہتے تھے۔

خیال رہے کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ اکتوبر 2017 میں صدر مملکت کی منظوری کے بعد نافذ کیا گیا تھا، تاہم اس قانون کے تحت بننے والے کاغزات میں کچھ ڈکلریشن میں نظرثانی کی گئی تھی جو گزشتہ کاغزات نامزدگی میں موجود نہیں تھیں۔

فارم سے جن ڈکلریشنز کو ختم کیا گیا تھا ان میں بینکوں سے حاصل قرض، حکومتی اخراجات یا یویلیٹی ادائیگیوں کا فرق، بیویوں اور انحصار کرنے والوں کی فہرست، زیر التوا مقدمات، تعلیمی قابلیت، موجودہ پیشہ، قومی ٹیکس نمبر، کل اثاثوں پر گزشتہ تین برسوں کے دوران انکم ٹیکس کی ادائیگی، تین برسوں میں غیر ملکی دورے، غیر ملکی پاسپورٹ کی تفصیلات اور اس بات کا حلف کے وہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں رکھتا سمیت مختلف ڈکلریشنز شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات ایکٹ: حکومت نے نظر ثانی درخواست دائر کرنے کیلئے وقت مانگ لیا

اس کے ساتھ ساتھ اس اصلاحتی ایکٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر عمل بھی نہیں کیا گیا تھا۔

دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت پاکستانی ووٹرز کے بنیادی حق کا تحفظ شامل ہے۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اوراس معاملے پر متعلقہ پارٹیوں کو اپنا تحریری جواب 23 اپریل تک جمع کرانے کی ہدایت کردی۔


یہ خبر 20 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں