آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کو نوٹسز جاری کردیئے۔

اے پی ایس حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے چیف جسٹس سے ملاقات کی اور اس دوران وہ دلبرداشتہ ہوکر رو پڑے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے کیس کو دیکھنے اور ان کے مطالبات کو سمجھنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔

فل بینچ، جس کے دیگر ممبران میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عمر عطا بندیال شامل ہیں، نے رجسٹرار کو پشاور ہائی کورٹ میں اے پی ایس حملے سے متعلق زیر التوا پٹیشنرز کو طلبی کا حکم جاری کیا۔

مزید پڑھیں: پشاور اسکول حملے کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا مطالبہ

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یا تو وہ خود پشاور کا دورہ کریں گے یا پھر ایک اور بینچ تشکیل دیں گے جو ان والدین کی داد رسی کرے گا۔

چیف جسٹس نے سانحہ اے پی ایس سے متعلق ازخود نوٹس اس وقت لیا جب کچھ شہید بچوں کے والدین نے چیف جسٹس سے کیس کی سماعت کے دوران فریاد کی۔

شہید طالب علم اسفند خان کی والدہ اے پی ایس شہیدوں کے حوالے سے مسائل چیف جسٹس کو سناتے ہوئے رو پڑیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آج تک اپنے بیٹے کو تھپڑ نہیں مارا تھا جب کہ دہشت گردوں نے ان کے بیٹے پر 6 گولیاں چلائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ’3 سالوں سے وہ انصاف کے لیے در بدر پھر رہی ہیں لیکن انہیں انصاف نہیں مل رہا‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'حکومت نے اے پی ایس شہداء سے کیا وعدہ توڑ دیا'

ایک اور طالب علم کی ماں اپنے بیٹے کی تصویر لیے بینچ کے سامنے پیش ہوئیں۔

تقریباً تمام ہی متاثرین نے شکایت کی کہ حملوں سے چند ہفتوں قبل قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) نے دہشتگردوں کے منصوبے کے حوالے سے اطلاع دے دی تھی تو اس کو روکنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں ایک غیر جانبدار جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ اسے نظر انداز کرنے والے متعلقہ حکام کو سبق سکھایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ حکام اس معاملے پر انکوائری کرنے میں اتنا شرما کیوں رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: آرمی پبلک اسکول حملہ: پولیس تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری

ایک ماں نے چیف جسٹس سے کہا کہ ’آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انصاف کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور اگر آپ ہمیں انصاف دینے میں ناکام ہوتے ہیں تو آپ کو روز محشر جواب دینا ہوگا، میرا ایک ہی بیٹا تھا، جسے دہشت گردوں نے قتل کردیا اور میں اب بھی نہیں جانتی کے اس کے قتل کا ذمہ دار کون ہے‘۔

چیف سیکریٹری اعظم خان نے عدالت کو بتایا کہ والدین کا بنیادی مطالبہ اس معاملے میں جوڈیشل انکوائری کرانا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت نے اب تک انکوائری کا حکم کیوں نہیں جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ تمام بچوں کے لیے والد کی طرح ہیں اور ان سب کو انصاف دلائیں گے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 20 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں