ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے حال ہی میں کمیشن کی سالانہ رپورٹ ترتیب دینے والی کنسلٹنٹ مریم حسن کے گھر میں ‘چوری کے انداز میں چھاپہ’ مارنے کی مذمت کردی۔

ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں واقع مریم حسن کے گھر میں جمعرات کی رات کو چھاپہ مارا گیا جو ایک گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران چوری بھی کی گئی۔

مریم حسن لاہور میں گھر میں اکیلی رہتی ہیں اور دو’چوروں’ نے اس چھاپے کے دوران ان کے گھر سے ان کا لیپ ٹاپ، فونز، دو ہارڈ ڈرائیوز، زیورات اور نقدی بھی اٹھا لیا۔

اعلامیے کے مطابق ‘انھوں نے مریم حسن سے کہا کہ وہ اس سے پہپلے دن میں بھی ان کے گھر آئے تھے لیکن کوئی چوری نہیں کی کیونکہ وہ گھر میں نہیں تھیں’۔

انھوں نے کارروائی مکمل کرکے جانے سے قبل ‘مریم حسن سے ان کے پیشے کے حوالے سے سوال کیا اور انھیں گول مول انداز میں ڈرایا’۔

مزید پڑھیں:’پاکستان میں خواتین، اقلیتوں اور صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ‘

ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ ‘ایچ آر سی پی کو شبہ ہے کہ یہ دو افراد معمولی چور نہیں تھے اور حکومت پنجاب سے مطالبہ ہے کہ وہ ملزمان کو پکڑکر ان کی شناخت واضح کریں، کمیشن سے منسلک کسی بھی فرد کو ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو ذمہ داری صوبائی حکام پر عائد ہوگی’۔

خیال رہے کہ 1987 میں قائم ہونے والا ایچ آر سی پی ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی او) ہے جو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتا ہے اور عوامی مہم، عدالتوں میں مقدمات دائرکرنے کے علاوہ لابنگ کے ذریعے اس کا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہے۔

ایچ آر سی پی نے گزشتہ ہفتے ‘اسٹیٹ آف ہیومن رائٹس ان 2017 ‘ کے عنوان سے رپورٹ جاری کی تھی جس میں جبری گمشدگیوں اور آسان ٹارگٹ کو نشانہ بنانے، اظہار کی آزادی پر قدغن کے بڑھتے ہوئے رجحان کو نمایاں کیا گیا تھا جبکہ پاکستان میں دیگر پہلووں میں قانون سازی میں بہتری کو سراہا بھی گیا تھا’۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لاپتہ افراد کے کمشین کے ذریعے 313 لاپتہ افراد کے کیسز سامنے آئے جو بدستور حل طلب ہیں اور 2017 صحافیوں اور بلاگرز کے لیے مشکل سال تھا۔

ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ‘صحافیوں اور بلاگرز کو بدستور، دھمکیاں، حملے اور لاپتہ کرنے کے خطرات موجود ہیں اور توہین کا قانون مجبور افراد کو خاموش کروانے کا باعث ہے’۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے ایک اور منتخب وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹایا گیا، تاہم آرٹیکل 62 کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کو اہم ترین قرار دیا گیا۔

اس کے علاوہ بتایا گیا کہ سال 2017 میں وکیلوں اور ججوں کے درمیان کشیدگی میں شدت آئی اور گزشتہ برس عدالتوں میں 3 لاکھ 33 ہزار 103 مقدمات زیر التوا رہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2017 میں 63 لوگوں کو پھانسی دی گئی، جن میں سے 43 کو سزا فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی تھی جبکہ ان میں سے سوشل میڈیا پر مذہب کی تضحیک کے الزام میں پہلی مرتبہ ایک شخص کو سزائے موت سنائی گئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی جبکہ جیلوں کی بات کی جائے تو ملک کی مختلف جیلوں میں 8 ہزار 395 قیدیوں کی گنجائش کی جگہ پر 10 ہزار 811 قیدی رکھے گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں