کراچی: سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد کو جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود اور 3 دیگر نوجوانوں کو جعلی انکاؤنٹر میں قتل کرنے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔

نقیب اللہ محسود سمیت چاروں افراد کو 13 جنوری 2018 کو کراچی کے نواحی علاقے میں جعلی انکاؤنٹر میں قتل کردیا گیا تھا۔

جے آئی ٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پولیس افسر راؤ انوار کو معصوم شخص نقیب اللہ محسود کو جعلی انکاؤنٹر میں قتل کرنے کا قصوروار ٹھہرایا ہے۔

ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل (اے آئی جی) ڈاکٹر آفتاب پٹھان کی سربراہی میں کام کرنے والی جے آئی ٹی اپنی تحقیقات مکمل کرچکی ہے اور رپورٹ متعلقہ حکام کو جلد جمع کرائی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے 21 مارچ کو کیس میں نئی ’جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے کئی اجلاس ہوئے جن میں راؤ انوار کے بیان قلمبند کیے گئے، اراکین نے ان مقامات کا دورہ بھی کیا جہاں سے نقیب کو اغوا کیا گیا اور شاہ لطیف ٹاؤن میں جہاں اس کا انکاؤنٹر کیا گیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کا قتل: 13 مفرور ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس کی نئی ٹیمیں تشکیل

سپریم کورٹ کی ہدایت پر جے آئی ٹی بننے کے بعد واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائمخانی کا تبادلہ کردیا گیا۔

اس کے بعد جے آئی ٹی کی منظوری سے ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر محمد رضوان احمد کو واقعے کے تین مقدمے کا تحقیقاتی افسر مقرر کیا گیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب قتل کیس میں سینئر پولیس افسر اور کانسٹیبل گرفتار

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد ملک بھر میں محسود قبائل کی جانب سے مظاہروں کا آغاز کردیا گیا، جس میں مظاہرین کا کہنا تھا سابق ایس ایس پی کا بیان متنازع ہے کیونکہ نقیب اللہ محسود ماڈل بننے کا خواہشمند تھا اور اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔

19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا۔

23 جنوری کو نقیب اللہ محسود کے والد کی مدعیت میں سچل تھانے میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو نامزد کیا گیا۔

مقدمے میں نقیب کے والد نے موقف اپنایا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار 8 سے 9 سادہ لباس اہلکاروں کی مدد سے ان کے بیٹے کو لے گئے تھے۔

کراچی میں سہراب گوٹھ پر لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پر عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ تفتیشی ٹیم نے 14 گھنٹوں میں ثابت کیا کہ مقابلہ جعلی تھا اور نقیب اللہ بے گناہ تھا۔

بعد ازاں راؤ انوار اور واقعے کہ ذمہ دار دیگر پولیس افسران و اہلکار مفرور ہوگئے تھے۔

آخر کار 21 مارچ 2018 کو سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور انہیں از خود نوٹس کی سماعت کے بعد گرفتار کرلیا گیا تھا۔

سابق ایس ایس پی ملیر کو سپریم کورٹ کے عقبی دروازے سے عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ انہوں نے اپنے چہرے کو ماسک ڈھانپ رکھا تھا، راؤ انوار کی پیشی کے موقع پر سپریم کورٹ اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جہاں اسلام آباد پولیس سمیت سندھ پولیس کی بھی بھاری نفری تعینات تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں