واشنگٹن: امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 2016 سے 2017 کے درمیان پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں تقریباً 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی انسانی حقوق پر بنائی گئی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2017 کے اختتام تک پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات کی تعداد ایک ہزار 84 تھی جبکہ 2016 میں یہ تعداد ایک ہزار 803 تھی۔

ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل ( ایس اے ٹی پی ) کے جمع کردہ اعداد و شمار میں ان اموات کی شرح کو 39.878 فیصد کم بتایا گیا جبکہ اگر 2017 کے آخری کے دو ماہ کو بھی اس میں شامل کرلیا جاتا تو اس کی شرح میں مزید بہتری آسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے انسداد دہشت گردی پر ’فیکٹ شیٹ‘ جاری کردی

امریکی رپورٹ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ غیر ریاستی عناصر کی جانب سے پرتشدد واقعات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ملک میں انسانی حقوق کے مسائل کا سبب بنے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ فوج کی جانب سے عسکریت پسند اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی گئی لیکن اس کے باجود ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر کا ملک کے مختلف حصوں میں تشدد، سماجی اور ثقافتی عدم برداشت، لاقانونیت کے فروغ میں اہم کردار رہا اور اس طرح کے زیادہ تر واقعات بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ( فاٹا) میں دیکھے گئے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں پاکستان میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کی نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا کہ 2017 میں ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں لوگوں کے اغوا اور جبری گمشدگیوں کے واقعات دیکھے گئے اور پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کچھ قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھا گیا اور ان کی جگہ بتانے سے انکار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں مسلسل تیسرے سال دہشت گردی میں کمی، رپورٹ

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے کارکنان اور اندرون سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں قوم پرستوں کی گمشدگیوں کے واقعات بھی رونما ہوئے۔

امریکی رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ ان تمام علاقوں میں درجنوں سرگرم سیاسی کارکنان کو اغوا کیا گیا اور تشدد کے بعد انہیں قتل کردیا گیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے واضح کیا گیا کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن کو 4 ہزار 608 افراد کے کیسز موصول ہوئے، جس میں کمیشن نے دعویٰ کیا کہ 3 ہزار 76 کو نمٹا دیا گیا جبکی 1532 زیر التوا ہیں۔

کمیشن کے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ افراد خیبر پختونخوا میں لاپتہ ہوئے اور ان کی تعداد 751 تھی، اس کے بعد پنجاب سے 245، بلوچستان سے 98، سندھ سے 50، فاٹا سے 48، اسلام آباد سے 45، آزاد کشمیر سے 14 اور گلگت بلتستان سے 5 افراد لاپتہ ہوئے۔

رپورٹ انسانی حقوق کے مسائل میں جن چیزوں کی سب سے زیادہ نشاندہی کی گئی ان میں ماورائے عدالت قتل، ٹارگٹ کلنگ، گمشدگیاں، تشدد، لاقانونیت اور محدود احتساب کو شامل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 27 فیصد کمی، نیپ رپورٹ

اس کے علاوہ رپورٹ میں طویل مدتی ٹرائل، ماتحت عدالتوں کی خودمختاری میں کمی، حکومت کی جانب سے شہریوں کے ذاتی حقوق میں مداخلت، صحافیوں کو ہراساں کرنے اور میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کے خلاف حملے اور دیگر معاملات کو بھی رپورٹ میں اضافی مسائل کے طور پر بتایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کی اسمبلی، تحریکوں اور مذہب کی آزادی کو محدود کرنا، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات جاری رہے۔

اس کے علاوہ حکومت اور پولیس میں کرپشن، جرائم کی تحقیقات میں کمی، جنسی تفریق اور ریپ کے واقعات بھی پاکستان میں انسانی حقوق کے مسائل میں شامل ہیں۔


یہ خبر 21 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں