نئی دہلی: بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ میں چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مسرا کو مبینہ طور پر نازیبا رویہ رکھنے پر سوالات کرنے کے لیے تحریک کا آغاز کردیا۔

قانونی ذرائع کا کہنا تھا کہ جسٹس مسرا نے کرپشن کے الزامات کے حوالے سے حساس کیسز کو سپریم کورٹ کے غیر معروف جج کے حوالے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی ججز نے ملک کے چیف جسٹس کی صداقت پر سوالات اٹھا دیئے

جمعرات کو انہوں نے ایک جونیئر جج کے پراسرار قتل جس کیس میں بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی جنتا پارٹی کے سربراہ نریندر مودی کے قریبی ساتھی امیت شاہ ملزم ہیں، پر پریس کی انکوائری کے بھی تمام ذرائع بند کردیے تھے۔

خیال رہے کہ اپیکس کورٹ کے 4 سینیئر ججز نے جسٹس مسرا کے حساس کیسز کو جونیئر ججز کو دینے کے فیصلے کے خلاف عوامی طور پر احتجاج کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کیسز کو جونیئر جج کے بجائے سینیئرز کو دیا جانا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: ججز تنازعے کے حل کیلئے بار کونسل نے کمیٹی تشکیل دے دی

رپورٹس کے مطابق کانگریس اور 6 دیگر اپوزیشن پارٹیز نے جسٹس مسرا کی برطرفی کے لیے نوٹس جاری کیے ہیں۔

یہ بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی اعلیٰ جج کے خلاف تحریک چلائی جارہی ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے کانگریس کے غلام نبی آزاد کی سربراہی میں نائب صدر اور صدر سے ملاقات کی اور ایوان بالا کے 71 ارکان کے دستخط شدہ نوٹس دیا۔

مزید پڑھیں: ججز کی بغاوت: سپریم کورٹ بار کی بھی بھارتی ججز کی حمایت

واضح رہے کہ نوٹس پر دستخط کرنے والے 7 اراکین ریٹائر ہوچکے ہیں تاہم اس پر گزشتہ چند ہفتوں سے کام کیا جارہا ہے اور اس پر اب بھی 64 اراکین کے دستخط ہیں اور برطرفی کی تحریک کو پارلیمنٹ کے سیشن میں نہ ہونے پر بھی چلایا جاسکتا ہے اور اسے راجیہ سبھا کے 50 ممبر آف پارلیمنٹ (ایم پی) یا لوک سبھا کے 100 ایم پیز کے دستخط کی ضرورت ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں کسی چیف جسٹس کو بر طرف نہیں کیا گیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا اس نوٹس پر کسی بھی فیصلے کو نائیڈو کی جانب سے قانونی ماہرین کی مشاورت سے عمل کیا جائے گا۔

آئین میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی اور برطرفی کے حوالے سے شق کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ جج کی برطرفی پر فیصلہ کیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے چیف جسٹس کے دفتر میں پہنچائے گئے پیغام پر انہوں نے اپنی رائے دینے سے گریز کیا۔

کانگریس کے سینیئر رہنما کاپل سیبال نے نوٹس جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے تھے یہ دن کبھی نہ آئے، عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم چیف جسٹس کا احتساب کریں جس طرح عوام ہمارا احتساب کرتی ہے، قانون کی بالادستی کسی دفتر کی بالادستی سے زیادہ اہم ہے‘۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 21 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں