اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی سرمایہ کاری اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بنائی گئی قائمہ کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی رقوم کے سبب رواں دواں ہے، اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی اپنی جمع پونجی سے محروم نہ ہو جائے۔

واضح رہے کہ بیرون ملک مقیم 2 پاکستانی شہریوں نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی، لیکن بیوروکریسی اور قانونی پیچیدگیوں کے سبب ان کی رقوم پھنس گئیں، جس کے بعد قائمہ کمیٹی کی جانب سے اس معاملے پر بیان جاری کیا گیا۔

محمد نواز بھٹی نامی شخص نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ 1998 میں امریکا سے واپس پاکستان منتقل ہوئے, اور اُس وقت 50 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ہمراہ لائے تھے، جس زمانے میں ڈالر کا ریٹ 60 روپے تھا، جو اب بڑھ کر 115 تک پہنچ گیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے منافع کی توقع میں گرینڈ حیات میں سرمایہ کاری کی، لیکن ایک دہائی گزرنے کے باوجود تاحال اپارٹمنٹ سے محروم ہوں، اب کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے مجھے انویسٹ کی گئی اصل رقم قسطوں میں ادا کرنے کی پیشکش کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی

ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے اپنے بجلی کے بل تو ادا کر نہیں سکتی وہ میرے اور دیگر 240 الاٹیز کے واجبات کس طرح ادا کرے گی، انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے امریکا اور پاکستان دونوں جگہ ٹیکس کی ادائیگی کے بعد قانونی طریقے سے رقم منتقل کی تھی۔

محمد نواز بھٹی نے کہا کہ میں نے 1990 کی دہائی میں ‘قرض اتارو ملک سنوارو’ اسکیم میں 2 لاکھ ڈالر بھی ادا کیے تھے، اور آج میری خود کی سرمایہ کاری بھی ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے اثاثے پاکستان منتقل کرنے سے ڈرتے ہیں۔

گرینڈ حیات میں سرمایہ کاری کرنے والے ایک اور فرد طارق خان بھی اس موقعے پر موجود تھے، جو پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے واپس پاکستان آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میرے پاس عرب امارات، امریکا اور برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے کا مواقع موجود تھے، لیکن میں نے پاکستان کو ترجیح دی، سرمایہ کاری کرنے سے قبل سی ڈی اے سے اس پروجیکٹ کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آپ بلا خوف و خطر سرمایہ کاری کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں 2015 میں پاکستان منتقل ہوا اور اپارٹمنٹ نہ ملنے کے سبب اُس وقت سے کرایے کے گھر میں مقیم ہوں، میرے بچے واپس نہیں آنا چاہتے تھے، لیکن میں ہمیشہ انہیں سمجھاتا رہتا تھا، اور اسی لیے میں نے اپارٹمنٹ خریدا تاکہ میرے بچے واپس پاکستان آکر رہ سکیں۔

مزید پڑھیں: اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 117 روپے تک پہنچ گئی

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکنِ اسمبلی شگفتہ جمانی کا کہنا تھا کہ 10 سال بعد سرمایہ کاری کی اصل رقم واپس کرنے کی پیشکش کرنا نا انصافی ہے، ہمیں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کی رقوم ملک میں محفوظ رہیں گی، ورنہ وہ دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گے۔

سی ڈی اے ممبر خوشحال خان نے اجلاس کے دوران بتایا کہ گرینڈ حیات پروجیکٹ 2005 میں شروع کیا گیا تھا، لیکن اکتوبر 2005 میں آنے والے زلزلے کے بعد بلڈرز کو کام کرنے سے روک کر بلڈنگ کوڈز میں تبدیلی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جبکہ عمارت کی منزلیں 47 سے گھٹا کر 23 کردی گئیں تھیں، اور اسی حساب سے رقم کی ادائیگی کو بھی تبدیل کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2016 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے زمین کی لیز منسوخ کرتے ہوئے سی ڈی اے کو زمین کی تحویل واپس لینے اور الاٹیز کے واجبات ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا، بلڈر نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، جبکہ الاٹیز نے بھی رقوم کے بجائے اپارٹمنٹ حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔

خوشحال خان نے کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعظم نے عمارت کی تعمیر کے معاملے کو حل کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی تھی، جسے سپریم کورٹ نے کام کرنے سے روک دیا تھا، اور موجودہ صورتحال کے مطابق 240 میں سے صرف 6 الاٹیز اپنی اصل رقوم واپس لینے کے لیے راضی ہوئے۔

جماعت اسلامی کی ممبر قومی اسمبلی عائشہ سید نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی حب الوطنی کے باعث ملک مییں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لیکن ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس دہندگان اپنے اکاؤنٹ میں ڈالر جمع کراسکتے ہیں، اسٹیٹ بینک

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی شیخ صلاح الدین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اس مسئلے میں مداخلت کرکے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی سرمایہ کاری ضائع ہونے سے بچائیں۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی - ف) سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے دعویٰ کیا کہ ’میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ اپارٹمنٹ ججز، جرنیلوں اور سیاستدانوں کو بطور تحفہ دیے گئے، جبکہ عمارت کا ایک پورا بلاک غیر ملکی ایجنسی کے حوالے کیا گیا‘۔

تاہم گرینٖڈ حیات کے چیف ایگزیکٹو حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ’نہ تو کوئی اپارٹمنٹ تحفے میں دیا گیا، نہ ہی کوئی انٹیلی جنس ایجنسی عمارت کو استعمال کرے گی‘۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین میر عامر خان مگسی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پروجیکٹ کو طول دینے کے پیچھے سی ڈی اے اور دیگر حکام کے کچھ مقاصد ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 21 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں