اسلام آباد/ لاہور: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے حکم پر ملک بھر میں غیر متعلقہ افراد کی ذاتی سیکیورٹی پر مامور تقریباً 13 ہزار 600 پولیس اہلکاروں کو واپس تھانوں میں بلانے کا عمل شروع ہو گیا۔

مذکورہ غیر معمولی فیصلے کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعدد سیاستدان بشمول سابق وزیرعظم نوازشریف، سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چیف مولانا فضل الرحمٰن، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے چیف اسفندیار ولی خان سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز پولیس افسران، بیوروکریٹس، غیر ملکی باشندوں، ججز اور صحافی اضافی سیکیورٹی سے محروم ہو جائیں گے۔

ملک کے چاروں صوبوں میں غیر متعلقہ افراد کی اضافی سیکیورٹی سے متعلق فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب سے 4 ہزار 610 پولیس اہلکار، سندھ سے 5 ہزار 5 اہلکار، خیبرپختونخوا سے 3 ہزار، بلوچستان سے 829 جبکہ اسلام آباد سے 246 اہلکاروں کو واپس اپنے متعلقہ تھانے میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

دوسری جانب آئی جی اسلام آباد پولیس ڈاکٹر سلطان اعظم تیموری نے ڈی آئی جی پولیس سیکیورٹی سمیت انسداد دہشت گردی کے وفاقی ادارے نیکٹا، خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو مستقبل میں پولیس سیکیورٹی کی فراہمی سے متعلق درخواستوں کا جائزہ لے گی۔

سپریم کورٹ میں اعلیٰ شخصیات کو اضافی سیکیورٹی دینے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی تھی، جہاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے اضافی سیکیورٹی واپس لینے کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔

آئی جی پنجاب کی رپورٹ

آئی جی پنجاب پولیس کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 4 ہزار 6 سو 10 اہلکار سیکیورٹی چھوڑ کر واپس اپنی ذمہ داریوں پر بلائے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جن اہلکاروں کو واپس بلاگیا ان میں 297 اہلکار سیاستدانوں، 527 اہلکار سول ایڈمنسٹریٹرز اور پولیس افسران، 469 اہلکار ماتحت عدلیہ کے ججز، 54 اہلکار میڈیا پرسن جبکہ 23 پولیس اہلکار وکلا کی سیکیورٹی پر مامور تھے۔

مزید پڑھیں: ’اچھا اور سستا انصاف فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘

عدالت نے آئی جی پنجاب کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی پالیسی کے مطابق جس کو سیکیورٹی کی ضرورت ہے اسے ضرور فراہم کریں، ایسا نہ ہو کہ سیکیورٹی نہ ہونے کے سبب کوئی سانحہ رونما ہوجائے۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ میری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 7 ہزار کے قریب اہلکار اضافی سیکیورٹی پر تعینات تھے، علاوہ ازیں، چیف جسٹس نے آئی پنجاب کو شاباشی دیتے ہوئے 2 ہفتوں میں سیکیورٹی واپس لینے کی تفصیلات پر جامع رپورٹ طلب کرلی۔

خیبرپختونخوا میں 1769 افراد سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی، آئی جی

گزشتہ روز پشاور رجسٹری میں آئی جی خیبرپختوںخوا صلاح الدین محسود نے غیر متعلقہ افراد کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے بھر میں ایک ہزار 7 سو 69 افراد سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی، جس پر چیف جسٹس نے آئی جی خیبرپختونخوا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا۔

پولیس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ خیبرپختونخوا میں مختلف سیاسی رہنماؤں کی سیکیورٹی سے 426 اہلکاروں اور ارکان اسمبلی کی سیکیورٹ پر مامور 447 پولیس اہلکاروں کو واپس لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: ایک ہفتے میں اتائیوں کے کلینک بند کرنے کا حکم

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سول افسران کی سیکیورٹی سے 398 جبکہ ججز کی سیکیورٹی سے 94 پولیس اہلکاروں کو واپس بلایا گیا۔ اس کے علاوہ ہنگو میں خودکش حملہ آور کو روکنے والے اعتراز احسن کے گھر والوں سے بھی سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کی کارکردگی سے مطمئن ہوں، اگر کوئی عدالت کیس کو سیلیوٹ کرسکتی تو میں آپ کو سیلیوٹ کرتا۔

یاد رہے کہ 20 اپریل کو از خود کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے انسپیکٹر جنرلز کو غیر مجاز افراد سے سیکیورٹی واپس لینے کا حکم دیا تھا۔

سندھ میں بھی غیر مجاز افراد کی سیکیورٹی واپس لینے کا نوٹفکیشن جاری

سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ نے غیر مجاز افراد کی سیکیورٹی پر تعینات ہزاروں پولیس اہلکاروں کی فوری واپسی کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم سے صرف کراچی میں 4 ہزار کے قریب پولیس اہلکار اپنی اصل ڈیوٹیوں پر واپس آجائیں گے۔

آئی جی سندھ پولیس نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے متعلقہ افسران کو ہدایت کی کہ ان تمام افراد سے سیکیورٹی واپس لی جائے جو قانونی طور پر اس کے حقدار نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ غیر مجاز افراد کو پولیس سیکیورٹی مہیا کرنے پر سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا تھا، جس کے فیصلے کی روشنی میں آئی جی سندھ نے سیکیورٹی واپس لینے کے احکامات جاری کیے۔

آئی جی سندھ کی جانب سے افسران کو ایک جامع رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس میں سیکیورٹی فراہمی کی وجوہات اور واپس لینے کی تفصیلات درج ہوں، جبکہ سندھ پولیس کے تمام یونٹس کو ایفی ڈیوٹ بھی جمع کرانے کا کہا گیا ہے جس کی رو سے کسی بھی غیر مجاز شخص کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کا ’غیر مجاز‘ افراد سے سیکیورٹی واپس لینے کا حکم

کراچی پولیس کے ایک افسر نے ڈان کو بتایا کہ اس حکم سے قبل سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سیکیورٹی پر تقریباً 150 پولیس اہلکار مامور تھے، جبکہ عدالت عظمیٰ کے موجودہ جج کو 80 اہلکار فراہم کیے گئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ سیکڑوں پولیس اہلکار سینئر پولیس افسران کے گھروں، کاروباری مراکز، عزیزوں اور گاؤں میں ڈیوٹیاں انجام دے رہے تھے۔

سیکیورٹی حاصل کرنے کے مجاز افراد کو 12 کیٹیگریز میں رکھا گیا جس میں صدر اور سابقہ صدر، وزیراعظم اور سابقہ وزیراعظم، سینیٹ چیئرمین، اسپیکر قومی اسمبلی، اسپیکر صوبائی اسمبلی، وزیراعلیٰ اور دورے پر آئے وزیراعلیٰ، گورنر اور دورے پر آئے گورنر، صوبائی اور وفاقی وزرا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جج صاحبان، چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ، وزیراعلیٰ کے سیکریٹری، گورنر کے سیکریٹری، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر، اعلیٰ پولیس افسران، ایسے افراد جنہیں دھمکیاں ملنے پر وزارت داخلہ سیکیورٹی فراہم کرے اور عدالت کی جانب سے جن کی حفاظت کے احکامات دیے جائیں، شامل ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Tipu Apr 22, 2018 11:19am
اچھا قدم ہے۔ جب تک بااختیار لوگ عام آدمی کی مشکلات نہیں محسوس کریں گے اس وقت تک وہ حل بھی نہیں ہونگی۔