ایرانی جوہری معاہدے سے متعلق امریکی موقف میں نرمی کا امکان

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون، میلانیہ ٹرمپ اور برگیٹی میکرون امریکی وائٹ ہاؤس کی بالکنی میں موجود ہیں — فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون، میلانیہ ٹرمپ اور برگیٹی میکرون امریکی وائٹ ہاؤس کی بالکنی میں موجود ہیں — فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے فرانس کے موقف پر غور کررہے ہیں۔

واضح رہے فرانس نے اوباما انتظامیہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ کرانے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا، تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 12 مئی کو اس معاہدے کے اختتام کی دھمکی کے بعد فرانس اس کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کررہا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے میں ان دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین نے بھی بطور ضامن دستخط کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا ایران سے جوہری معاہدہ جاری نہ رکھنے کا اعادہ

وائٹ ہاؤس کابینہ کے کمرے میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں صدور نے اپنے اہم مشیران کے ہمراہ شرکت کی، بعد ازاں میڈیا کو بتایا گیا کہ ملاقات میں خاص طور پر ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والا جوہری معاہدہ موضوع گفتگو رہا۔

ملاقات کے بعد میڈیا کو دیئے گئے بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کے ساتھ جوہری معاہدے پر ہونے والی گفتگو کو خوشگوار قرار دیا، تاہم انہوں نے غیر واضح انداز میں کہا کہ ’ہم کچھ فیصلے کرنے پر غور کررہے ہیں لیکن جو بھی کرنا ہے بھرپور قوت سے کرنا ہے‘۔

جوہری معاہدے پر فرانس کے موقف کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہماری ملاقات کامیاب رہی اور ہم ایک دوسرے کا موقف سمجھنے کے کافی قریب ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے میں کوئی بھی ’تبدیلی‘ قبول کرنے سے انکار

جب کے اس موقع پر فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے کو وسیع تر تناظر میں دیکھ رہے ہیں، ہمارے سامنے شام اور پوری دنیا کی صورتحال ہے، ہمارے مفادات مشترک ہیں جس کے تحت ہم خطے میں جوہری عدم پھیلاؤ چاہتے ہیں تاہم اس کے لیے درست سمت تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

ماضی میں میڈیا کو دیئے گئے ریمارکس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور ایران کے جوہری معاہدے کو ’تباہ کن‘ اور پاگل پن قرار دے چکے ہیں لیکن ماضی کے برعکس اب وہ معاہدے کو منسوخ کیے جانے کے بیان سے گریز کررہے ہیں، البتہ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے 2015 میں روک دیا جانے والا، اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کیا تو اسے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی وارننگ نظر انداز، ایران کا نیا میزائل تجربہ

معاہدے کے منسوخ ہونے کی صورت میں امریکا کے ردعمل کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنا اتنا آسان نہ ہو گا، اگر انہوں نے ایسا کیا تو انہیں اتنے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جو کبھی سوچے بھی نہ ہوں گے۔

اس کے علاوہ امریکی صدر نے اپنے پیش رو باراک اوباما کی انتظامیہ کی جانب سے معاہدے کے تحت ایران کو میزائل ٹیسٹ کی اجازت دینے پر انہیں تنفید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’ایران میزائل ٹیسٹ کررہا ہے یہ کس طرح کا تباہ کن معاہدہ ہے‘۔

مزید پڑھیں: ایران کی جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی

واضح رہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ دھمکی ایران کے صدر حسن روحانی کے اس بیان کے بعد سامنے آئی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا نے جوہری معاہدہ منسوخ کیا تو اس کے بہت خطرناک نتائج مرتب ہوں گے، البتہ انہوں نے کسی قسم کے اقدام کا ذکر کرنے سے گریز کیا۔

دوسری جانب اسی تناظر میں دیئے گئے ایک بیان میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے خبردار کیا تھا کہ مذکورہ صورت میں ایران یورینیم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کرسکتا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 25 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں