اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار 2005 میں آنے والے زلزلے کی بحالی کے کاموں کا جائزہ لینے کے لیے بالاکوٹ روانہ ہوگئے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے 2005 میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آنے والے زلزلے کے بعد علاقے میں بحالی کے کام کے لیے مختص فنڈز میں کرپشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران شمالی علاقہ جات میں بحالی کا کام کرنے والی تنظیم ’ایرا‘ کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کے شہر بالاکوٹ میں ابھی تک لوگ بغیر چھت کے رہ رہے ہیں، یہ اداروں کی کارکردگی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی چیف جسٹس کو انصاف کی فراہمی میں تعاون کی یقین دہانی

زلزلہ بحالی کے فنڈز میں ہونے والی مبینہ خردبرد کے حوالے سے دائر پٹیشن کے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اب تک ایک ہزار 6 سو 40 منصوبے نہیں بنے۔

چیئرمین ایرا نے عدالت کو بتایا کہ ادارے کے وجود میں آنے سے اب تک 15 ارب 36 کروڑ روپے انتظامی امور پر خرچ ہوئے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ رقم بھرتیوں اور نوکریوں پر خرچ ہوئی ہوگی اور کسی کے مامے، بھتیجے، چچا اور عزیز و اقارب میں سے ایرا میں بھرتی کیے گئے ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زلزلہ زدگان کے لیے امداد کی رقم میں کرپش کا معاملہ متعلقہ اداروں کے لیے شرم کا مقام ہے۔

انہوں نے کہا کہ زلزلہ زدگان کی امداد کا معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے لیے روزانہ کی بنیاد پر تحقیقات کا کیس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 60 ارب خسارے کا کیس: چیف جسٹس نے ریلوے کے آڈٹ کا حکم دے دیا

اس موقع پر درخواست گزار نے چیف جسٹس کے سامنے کہا کہ ’اللہ نے آپ کو ذہین بنایا ہے کہ آپ مانسہرہ کا دورہ کریں، اور وہاں پر سہولیات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ایرا نے 13 سال میں وہاں کچھ نہیں کیا‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ بالاکوٹ جائیں گے اور وہاں پہنچ کر حالات جائزہ بھی لیں گے۔

عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ہولناک زلزلے سے 28 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور 8 ہزار 49 عمارتیں بھی تباہ ہوئیں جبکہ 3 ہزار 8 سو 47 تعلیمی درس گاہیں بھی اس زلزلے میں نہ بچ سکیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان علاقوں میں 9 ہزار 7 سو 76 منصوبوں میں سے اب تک 4 ہزار 28 منصوبوں پر کام ہوا جبکہ ڈونرز کی جانب سے ایک ہزار 2 سو 80 میں سے ایک ہزار 2 سو 74 منصوبے مکمل ہوئے، اور اسپانسرز کی جانب سے 3 ہزار سے زائد منصوبے مکمل ہوئے۔

مزید پڑھیں: ‘جانی نقصان پہنچا تو چیف جسٹس کےخلاف مقدمہ درج ہوگا‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امدادی رقم کا بیشتر حصہ علاقے کے انتظامی اخراجات پر خرچ کیا گیا۔

نمائندہ ایرا نے عدالت کو بتایا کہ ادارے کو 2 کھرب 90 ارب 85 کروڑ روپے دیئے گئے، جن میں سے 100 ارب روپے بیرون ملک سے موصول ہونے والی امداد تھی جبکہ حکومت نے 190 ارب 85 کروڑ روپے کی امداد کی۔

نمائندہ ایرا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بحالی کے کاموں کے لیے زیر التوا منصوبے مکمل کرنے کے لیے مزید 37 ارب روپے درکار ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو لوگ اس معاملے میں کوتاہی کے ذمہ دار ہیں ان کو شرم آنی چاہیے۔

بعدِ ازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بینچ کے دیگر جج صاحبان جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس سجاد علی شاہ کے ہمراہ زمینی راستے سے بالاکوٹ روانہ ہوگئے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 25, 2018 05:36pm
اب تک ایک ہزار 6 سو 40 منصوبے نہیں بنے۔ یہ تو بہت شرم کی بات ہے۔