اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ملک کے سابق صدور آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویز مشرف کو قومی مصالحت آرڈیننس (این آر او) سے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے سے متعلق پٹیشن میں عدالت کرلیا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لائیرز فاؤنڈیشن فار جسٹس کے صدر فروز شاہ گیلانی کی جانب سے دائر پٹیشن میں نوٹسز جاری کیے۔

یہ پڑھیں: ’فوج کا کسی این آر او سے کوئی تعلق نہیں ہے‘

پٹیشن میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

فروز شاہ گیلانی نے پٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ غیر قانونی طریقے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا جس کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پہلے سے ہی فیصلے موجود ہیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا اور این آر او کا اعلان کردیا، جس کے تحت سیاستدانوں، جن میں آصف علی زرداری بھی شامل ہیں، نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں: این آر او کیس: لارجر بنچ کی تشکیل

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ ‘سپریم کورٹ نے 16 دسمبر 2009 میں این آر او کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ فریقین سے لوٹی گئی رقم واپس لی جائے بشمول 6 کروڑ ڈالر جو مبینہ طور پر آصف علی زرداری نے سوئس اکاؤنٹ میں جمع کرائیں ہیں۔

دوسری جانب سابق اٹارنی جنرل قیوم نے جینوا کے اٹارنی جنرل کو آصف علی زرداری کے خلاف کرمنل اور سول مقدمات کو کالعدم قرار دینے کے لیے خط لکھا لیکن سپریم کورٹ نے 2009 میں فیصلہ سنایا کہ سابق اٹارنی جنرل قیوم نے مراسلہ ذاتی حیثیت میں لکھ کر ارسال کیا جو رولز آف بزنس 1973 کے منافی ہے۔

واضح رہے کہ 7 جولائی 2012 کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری سمیت این آر او سے مستفید ہونے والے 8 ہزار 500 افراد کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے۔


یہ خبر 25 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 25, 2018 05:26pm
آخر زرداری کے 6 کروڑ ڈالر دوبارہ کورٹ میں پہنچ گئے! اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی جانب سے ذاتی حیثیت میں جینوا کے اٹارنی جنرل کو آصف علی زرداری کے خلاف کرمنل اور سول مقدمات کو کالعدم قرار دینے کے خط کا معاملہ بھی۔ لگتا یہ ہی ہے کہ اب ایک اور پارٹی کو بھی عدالت پر اعتراضات ہونگے۔