اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد پر ہونے والے مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق نئی رپورٹ پیش نہ کرنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکیورٹی اداروں پر برہمی کا اظہار کردیا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہیں اس لیے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل آج ملک سے باہر ہیں پہلے تو یہیں تھے۔

مزیر پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس:خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری جاری

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سیکیورٹی اداروں کی طرف سے مزید رپورٹس آئی ہیں، اور اگر نہیں آئیں تو کیوں نہیں آئیں جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نئی رپورٹ کے لیے عدالتی ہدایات نہیں تھیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ رواں برس 18 فروری کے حکم نامے میں سیکیورٹی اداروں سے رپورٹ طلب کی گئی تھی، رپورٹ پیش ہونے کے بعد اسے غیر اطمینان بخش قرار دیا گیا تھا اور کیا دوبارہ رپورٹ نہیں آنی چاہیے تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کس طرح ملک چلا رہے ہیں، کیا یہ ملک خوف میں رہنے کے لیے بنایا گیا ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کوئی خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے، یہ ملک فوج نے نہیں بنایا عوام کی قربانیوں سے ملک بنا اور میرے آباؤاجداد نے بھی تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا، یہ ملک اشاروں پر نہیں چلے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے اسلام آباد دھرنے کا نوٹس لے لیا

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاریخ پڑھیں پاکستان کس طرح بنایا گیا، قائداعظم کے اردگرد ایسی لیڈر شپ تھی جو پاکستان بنانا چاہتے تھے، قائداعظم کے ساتھ کوئی بریگیڈ نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی شہری کی املاک پر آنچ نہیں آنی چاہیے، سرکاری ملازم ملک کے حکمران نہیں خادم ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ معزز چیف جسٹس کو غلیظ گالیاں دی جاتی ہیں مگر کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی کو کون تنخواہ ادا کر رہا ہے؟ سیکیورٹی اداروں کو ان کے پس منظر اور ذرائع آمدن کا پتہ نہیں ہے۔

مزیر پڑھیں: سینیٹرز کا فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں فنڈز کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان لوگوں نے چندہ اکھٹا کیا تھا، اور 35 ہزار لوگوں نے دھرنا قائدین کو چندہ دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ فرض کیوں نہ کیا جائے کہ ہمارے دشمنوں نے یہ پیسہ دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ججز کو ہدف بنانا پاکستان میں جائز ہے، جبکہ جو لوگ گاڑیاں جلائیں تشدد کریں، راستے بند کریں ان پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: عدالت کا خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنے کا حکم

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عشق والوں نے غلیظ زبان استعمال کی، یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں، کیونکہ یہ لوگ اسلام کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ لوگ اسلام سے نفرت کریں۔

عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

آرمی تجارتی سرگرمیوں میں ملوث ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ پاک فوج ملک میں تجارتی سرگرمیوں میں ملوث ہے، جو ڈبل روٹی سے لیکر گوشت اور سیمنٹ بھی بیچ رہی ہے لیکن وہ اپنی ڈیلنگ عسکری انداز میں چاہتی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد پر ہونے والے مذہبی جماعت کے دھرنے سے متلعق انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے ان کے وکیل انعام الرحیم عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رجسٹرار آفس سے رپورٹ کے حصول کی درخواست دی تھی لیکن اسے مسترد کردیا گیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ میرے اوپر پہلے ہی 6 ریفرنس دائر ہیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ آج ساتواں ریفرنس بھی دائر ہوجائے۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنے سے گرفتار مزید 59 ملزمان کے ضمانتیں منظور

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے مطابق انکوائری رپورٹ سیل کی گئی ہے۔

سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیے کہ دنیا بھر میں کوئی فوج تجارتی سرگرمیوں میں شامل نہیں، اور بہت جلد سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کرکے اس حوالے سے جواب طلب کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج ڈبل روٹی، گوشت اور سیمنٹ تک بیچ رہی ہے، وہ کمائی تجارتی اور ڈیلنگ عسکری طریقے سے چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو ذہنی، معاشی اور اخلاقی طور پر غلام بنا دیا گیا ہے۔

بعدِ ازاں عدالت نے فیض آباد دھرنے سے متلعق انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے حوالے سے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں تحریک لبیک یارسول اللہ کے کارکنان کی رہائی کا آغاز ہوگیا اور ڈی جی پنجاب رینجرز میجر جنرل اظہر نوید کو، ایک ویڈیو میں رہا کیے جانے والے مظاہرین میں لفافے میں ایک، ایک ہزار روپے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں