اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ قرضہ معاف کرانے والوں کے پاس اگر رقم نہیں ہے تو اثاثے فروخت کرکے رقم وصول کریں گے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قرضہ معافی ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران وکیل نیشنل بینک اور مختلف بینکوں کے وکلاء بھی پیش ہوئے۔

دوران سماعت نیشنل بینک کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں مرکزی پارٹی اسٹیٹ بینک ہے جبکہ نجی بینک کے وکیل نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور بینکوں نے قرضے معاف کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’چیف جسٹس دیگر اداروں سے قبل عدلیہ میں اصلاحات کریں‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی اندازہ ہے کہ کتنے ارب روپے معاف ہوئے، جس پر وکیل نے بتایا کہ 54 ارب روپے معاف ہوئے جبکہ کمیشن کا کہنا ہے کہ قصہ ماضی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ مجھے بھی رپورٹ دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن بینک اس پیسے کی واپسی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مقدمات پرانے ہوگئے ہیں، اسی لیے اسے نہیں کھول رہا لیکن یہ بتایا جائے کہ سیاسی بنیادوں پر جو قرض معاف ہوئے اس کی تفصیلات کہاں ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 222 مشکوک مقدمات ہیں، نیشنل بینک نے بہت زیادہ رقوم کے قرضے مختلف ٹیکسٹائل ملوں کو معاف کیے ہیں۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جب سے یہ رپورٹ آئی ہے، اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی، یہ معاملہ ہمارے پاس 2007 سے زیر التوا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹٓس نے کہا کہ ہمیں رپورٹ چاہیے، رپورٹ کیا ہے،انہوں نے ذمہ داری کس پر ڈالی ہے، پوری رپورٹ کی سمری عدالت کو فراہم کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا بصارت سے محروم وکیل کو جج نہ منتخب کرنے کا نوٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرائے ان سے وصول کرتے ہیں۔

دوران سماعت درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزراء اعظم محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور چوہدری برادران نے بھی قرض لے کر معاف کرائے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن لوگوں نے قرض معاف کرائے ہیں، ان سے وصول کریں گے اور اگر رقم نہیں تو اثاثے فروخت کرکے رقم وصول کریں گے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جسٹس جمشید سے بات کرتا ہوں، لگتا ہے کمیشن کی ابھی صرف عبوری رپورٹ آئی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے جسٹس جمشید کمیشن کی رپورٹ کی نقل فریقین کو دینے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ گورنر اسٹیٹ بینک مقدمہ کی سمری آئندہ سماعت پر پیش کریں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا صوبائی حکومتوں کی تشہیری مہم کا نوٹس

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہر بندہ اپنے خرچے پر کمیشن رپورٹ حاصل کرے۔

دوران سماعت مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا حیات بھی پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مختلف لوگوں نے قوم کا پیسہ معاف کروا رکھا ہے اور اس پیسے سے جائیدادیں بنائی گئیں، ملک کے قوانین میں سقم ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بنانے والے آپ ہی ہیں، حکومت میں رہتے ہوئے آپ نے کیا کیا، آپ کی حکومت نے آپ کے توجہ دلاؤ نوٹس پر کیا کیا، سندھ حکومت نے قرار داد پاس کی کہ یہ معاملے کو عدالت دیکھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Bilal Apr 26, 2018 08:32pm
ٹیکسٹائل ملوں میں جو ظلم مزدوروں پر ہوتا ہے اسکا بھی نوٹس لیں ۔