اسلام آباد: 2010 سے لے کر اب تک آنے والے سیلابوں میں پاکستان نے 90 ارب ڈالر مالیت کا پانی ذائع کیا ہے۔

پاکستان کونسل کے تحقیق برائے پانی کے ذخائر کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا تھا کہ یہ نقصان انفراسٹرکچر، مویشی، ذراعت اور انسانی زندگی کے نقصان سے علیحدہ ہے۔

مزید پڑھیں: منگلہ ڈیم میں پانی کی شدید قلت کے باعث بجلی کی پیداوار بند

انہوں نے بین الاقوامی دہائی برائے ایکشن: پانی اور پائیدار ترقی 2018-28 کے عنوان پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اظہار خیال کیا اور کہا کہ پاکستان اپنے پانی کا صرف 10 فیصد حصہ ذخیرہ کر رہا ہے اور آبادی بڑھنے اور ذراعت میں غیر معمولی کمی کی وجہ سے زمینی پانی پر دباؤ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں زمینی پانی ہر سال بہت تیزی سے کم ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے معیار کے مطابق پاکستان کو اپنے 40 فیصد پانی کو ذخیرہ کرنا ضروری ہے جس کے لیے ہمیں ڈیم بنانے، زمینی پانی کو بچانے کے لیے ایک ریگولیٹری اتھارٹی بنانے اور آبادی کے بڑھاؤ کو روکنے کی ضرورت ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی ترجیحات اور سیاسی مفادات کو تبدیل کرلے تو پانی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'آئندہ سالوں میں پانی کا بحران شدت اختیار کر جائے گا'

انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کی جانب سے منعقد کی گئی تقریب میں شرکاء کو بتایا گیا کہ پانی کے بحران سے متعلق کام کرنے والی 4 بین الاقوامی اداروں کے مطابق 2025 تک تمام پاکستانی پانی کے بحران کا شکار ہوجائیں گے۔

تاجکستان کے پہلے ڈپٹی وزیر برائے خارجی امور نظام الدین زوہدی نے تقریب میں باہمی بھروسہ اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی شراکت کے ساتھ موثر تعاون قائم کرتے ہوئے پائیدار ترقی حاصل کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے بتایا کہ کس طرح بین الاقوامی دہائی برائے ایکشن: پانی اور پائیدار ترقی 2018-28 کو ان کے ملک کے صدر امام علی رحمٰن کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد صلاحیتوں کی ترقی کے لیے بورڈ تشکیل دینا ہے۔

مزید پڑھیں: ’پانی بحران سے سی پیک منصوبہ متاثر ہونے کا خدشہ‘

انہوں نے پانی کے بحران، ماحول میں تبدیلی، آبادی کا بڑھاؤ اور پانی کے ذخائر کی مانگ، انسانی اور مالی ذخائر کا استعمال، تعلیم اور ثقافت میں تعاون، اور سرحد کے بغیر پانی پر تعاون کے معاملات پر گفتگو کی۔

اس موقع پر آئی ایس ایس آئی کے چیئرمین، سفیر خالد محمود کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عالمی آبادی کے چھٹے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جبکہ 2025 تک دنیا بھر کے آدھے ممالک کو پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت پانی کی فراہمی، ذراعت، پینے کے لیے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے بالائی ایکو سسٹم پر انحصار کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ انتہائی اہم ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 27 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں