پشاور: خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں انسداد پولیو مہم کے دوران انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ پولیو ویکسین کے استعمال کے بعد 3 بچوں کی ہلاکت نے مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پشاور کے شاہین مسلم ٹاؤن کے لوگوں کی جانب سے 2 بچوں کو دفنانے کے بعد یہ الزام لگایا گیا کہ ہیلتھ ورکرز کی جانب سے دی گئی ویکسین بچوں کی اموات کا باعث بنی، لہٰذا اس معاملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

دوسری جانب محکمہ صحت نے شاہین مسلم ٹاؤن کے رہائشیوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا۔

مزید پڑھیں: ’ملک میں پولیو ویکسین نہ پلانے کے واقعات بڑھنے لگے‘

اس حوالے سے ایمرجنسی پولیو سینٹر کے کوآرڈینیٹر عاطف رحمٰن نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ دونوں بچوں کی اموات خسرہ اور گیسٹرو کے باعث ہوئیں جبکہ تیسرے بچے کے حوالے سے کمیٹی تحقیقات کر رہی ہے، جس کی رپورٹ 48 گھنٹوں میں آئے گی۔

خیال رہے کہ پشاور کے کچھ علاقوں میں یہ وائرس گزشتہ 5 برسوں سے پھیل رہا ہے جبکہ 23 اپریل سے انتہائی حساس یونین کونسلز میں پولیو وائرس کے خلاف بچوں کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے انہیں پولیو کی انجیکشن بھی لگائے تھے۔

اس حوالے سے مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ویکسینیشن کے باعث بچوں کی طبعیت خراب ہوئی جو ان کی موت کا باعث بنی، تاہم متعلقہ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی گئیں، جس کے مطابق 2 بچے اسی رات میں انتقال کرگئے جبکہ تیسرے بچے کی موت 27 اپریل کو واقع ہوئی لیکن ان اموات کی وجوہات میں انجیکشن پولیو ویکسین (آئی پی وی) کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

عاطف رحمٰن نے بتایا کہ انجیکشن سے لگائی گئی ویکسین کا رد عمل 30 منٹ کے اندر ہوتا ہے لیکن بچے کئی گھنٹوں اور دنوں کے بعد بیمار ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور ان کی رپورٹ آنے کے بعد اگر کوئی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

عاطف رحمٰن نے ڈان کو بتایا کہ بچوں کو آئی پی وی دینا پولیو کے خاتمے کی جدوجہد کا حصہ ہے اور ویکسین دینے کے معاملے میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اسے باآسانی فراہم کیا جائے اور بچوں کو محفوظ رکھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: مئی 2018 سے پہلے پاکستان پولیو سے پاک ہوجائے گا، رانا صفدر

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ برس ایک پولیو کا کیس دیکھا گیا تھا جبکہ رواں سال اب تک کوئی کیس ریکارڈ نہیں کیا گیا لیکن ابھی بھی وائرس کے خطرات بہت ہیں کیونکہ کوہاٹ اور بنوں کے اضلاع کے ساتھ شاہین مسلم ٹاؤن سے اس وائرس کے نمونے ملے ہیں جبکہ پشاور میں ماحولیاتی پانی کے نمونے مسلسل مثبت رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں کوئی کیس نہیں ملا لیکن یہ وائرس پھیل رہا ہے اور ہمارے بچوں کو معذوری سے بچانے کا واحد طریقہ یہ ویکسینیشن ہے، اس کے علاوہ ہماری مہم کے دوران 2 لاکھ بچوں کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جس میں تربیت یافتہ رضا کار رکھے گئے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آیا پولیو ویکسین پلائی جائے یا انجکشن کی صورت میں لگائی جائے وہ موت کا باعث نہیں بن سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں