اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بیوروکریسی کی جانب سے ان کے بجٹ میں تخفیف کیے جانے پر سینیٹ کے چیئرمین کو شکایت جمع کرائے گی۔

سینیٹر آغا شاہ زیب خان درانی نے کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی برس میں متعدد تجاویز ارسال کی گئی لیکن حکومتی اداروں نے مسلسل نظر انداز کیا۔

یہ پڑھیں: فاٹا اصلاحات کو ایک ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا، وزیراعظم

سینیٹرطلحہٰ محمود نے کہا کہ 2010 سے متعدد ترقیاتی اسکمیوں کی تجاویز متعلقہ سرکاری اداروں کو ارسال کی گئی لیکن کسی پر بھی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

سینیٹر شیبلی فراز اور عثمان کاکٹر نے طلحہ محمود کے موقف کی حمایت کرتےہوئے واضح کیا کہ بیوروکریسی ترقیاتی بجٹ کی دیکھ بحال کر رہی ہے جبکہ قانون سازوں کی جانب سے کوئی فعال کردار نہیں ہے۔

سینیٹر آغا شاہ زیب خان درانی کا کہنا تھا کہ ‘سینیٹ چیئرمین سے مذکورہ مسئلے پر بات کرنے سے قبل داخلی اجلاس بہت ضروری ہے’۔

کمیٹی کے ارکان نے واضح کیا کہ قومی اسمبلی پابند نہیں کہ بجٹ منظوری کے دوران وہ سینیٹ کی سفارشات کو قابل غور سمجھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں سپریم کورٹ، پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھانےکا بل منظور

بعدازاں پلاننگ کمیشن کے ایک عہدیدار نے میڈیا کو آئین کے آرٹیکل 73(ون اے) کے حوالے سے بتایا کہ ‘قومی اسمبلی سینیٹ کی سفارشارت کو زیر غور لائے گی اور اسمبلی سے پاس بل میں سینیٹ کی سفارشات کو شامل کرنا یا نہ کرنے کے بعد اسے منظوری کے لیے صدر کے سامنے پیش کیا جائےگا’۔

اجلاس میں کمیٹی کے ارکان کے مابین وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے لیے 24 ارب روپے مختص کیے جانے پر بھی گرما گرم بحث ہوئی جبکہ سفارشات میں فاٹا کے لیے 40 ارب روپے کی تجویز تھی۔

سینیٹرز نے واضح کیا کہ مذکورہ حکومتی اقدامات فاٹا اصلاحات کے منافی ہے۔

اس حوالے سے سینیٹر ساجد تری نے کہا کہ ‘فاٹا اصلاحات کے لیے اگلے 10 برس میں ایک کھرب روپے کی ادائیگی پر آمادگی کا اظہار کیا گیا لیکن اس ضمن میں صرف 10 ارب روپے مختص کیے گئے’۔

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات پر حکومت اور جرگے کے درمیان معاملات طے نہ ہوسکے

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘فاٹا میں صرف ایک ہوائی اڈہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے غیر فعال ہے، بجٹ میں اس کی فعالیت کے لیے رقم کیوں شامل نہیں کی گئی؟’

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ فاٹا کے لیے ڈیولپمنٹ منصوبوں کے لیے علیحدہ اجلاس طلب کیا جائے اور ساتھ ہی پلاننگ سیکریٹری کو اگلے اجلاس میں طلب کر کے استفسار کیا جائے کہ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری یا غیر منظوری سے متعلق کون فیصلے کررہا ہے؟۔


یہ خبر 03 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں