گوانتاناموبے میں قید سعودی باشندے کو پینٹاگون کی ہدایت کے مطابق سعودی عرب واپس پہنچا دیا گیا، جہاں وہ اپنی قید کی بقیہ مدت بحالی مرکز میں گزاریں گے۔

خیال رہے کہ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔

2002 میں فرینچ آئل ٹینکر پر حملہ کرنے کے الزام میں قید احمد الذربی کی منتقلی کے احکامات ایک روز قبل ہی جاری کیے گئے تھے جس سے بدنامِ زمانہ جیل میں قیدیوں کی تعداد 40 ہوگئی۔

خیال رہے یہ فیصلہ اُسی دن سامنے آیا جس دن پینٹاگون کی جانب سے کہا گیا کہ سیکریٹری دفاع جِم میٹس کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں گوانتاناموبے میں نئے قیدی پہنچانے کی بابت سفارشات پر مبنی ہدایت نامہ بھیجا گیا ہے، واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ گوانتانامو بے کو قیدیوں سے بھرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کئی مرتبہ کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گوانتانامو جیل سے 4 قیدیوں کی سعودی عرب منتقلی

خیال رہے کہ احمد الذربی فروری 2014 میں ’پلی ڈیل‘ میں شامل کیا گیا تھا،ان پر الزام تھا کہ انہوں نے فرانس کے آئل ٹینکر ایم وی لبمرگ پر حملے کی منصوبہ بندی اور معاونت فراہم کی، مذکورہ حملے میں ایک بلغارین فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے تھے، اس کے ساتھ خلیج عدن میں وسیع پیمانے پر تیل سطح سمندر پر آگیا تھا۔

ان الزامات کے پیش نظر احمد الذربی کوڈیل کی تاریخ سے 13برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذکورہ معاہدے میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ 4 برس مزید قید میں رہنے کے بعد ذربی سعودی دارالحکومت ریاض میں قائم پر آسائش بحالی مرکز میں اپنی سزا کی بقیہ مدت گزار سکتا ہے، جہاں سابقہ انتہا پسندوں کو بحالی کے لیے مدد فراہم کی جاتی ہے اور انکی نظریاتی اصلاح کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: گوانتاناموبے میں 91 قیدی باقی رہ گئے

ایک سیکیورٹی اہلکار نے سعودی خبررساں ادارے ایس پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ احمد الذربی کو مرکز بحالی منتقل کیا جائے گا، انہوں نے مزید بتایا کہ مذکورہ ملزم کے اہل خانہ کو اس کی آمد کی اطلاع دے دی گئی ہے جبکہ ان کی ملاقات کے بھی انتظامات کرلیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ گوانتانامو بے میں 2008 کے بعد سے کوئی نیا قیدی نہیں لایا گیا، تاہم اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ’برے لوگوں‘ سے بھرنے کا عندیہ دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے لیے خطرہ بننے والے افراد کو ٹرائل کے لیے مذکورہ جیل میں بھیجنا ٹھیک ہوگا۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے خصوصی احکامات جاری کرتے ہوئے 2009 میں اوبامہ کی جانب سے جاری کردہ گوانتانامو بے جیل کو بند کرنے کے احکامات معطل کردیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گوانتاناموبے: قیدیوں کی بھوک ہڑتال شدت اختیار کرگئی

پینٹاگون کی ترجمان کمانڈر سارا ہجینز نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جم میٹیس کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں پیش کردہ سفارشات ہمارے لیے رہنمائی فراہم کررہی ہیں، جس کے تحت امریکی سلامتی کے لیے خطرہ بن جانے والے افراد کی گوانتاناموبے جیل میں منتقلی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

تاہم انہوں نے سفارشات اور ان کے اثرات کے حوالے سے مزید کچھ بتانے سے گریز کیا، اس ضمن میں صدارتی قومی سلامتی کونسل نے اپنا موقف دینے سے انکار کردیا۔

گوانتاناموبے

خیال رہے کہ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد ریپبلکن پارٹی کے رہنما اور سابق امریکی صدر جارج بش نے کیوبا کے جزیرے گوانتانامو بے میں یہ جیل بنوائی تھی۔

سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق گوانتاناموبے میں 2001 کے بعد 40 ممالک کے 750 افراد کو قیدی بنایا گیا تھا۔

ان قیدیوں کو انتہائی خطرناک قرار دے کر کسی بھی قسم کی قانونی مدد کے بغیر گوانتاناموبے میں ہمیشہ کے لیے قید کیا گیا تھا اور یہاں ان کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز رویہ اختیار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا بدنام زمانہ ‘گونتانامو بے’ جیل فعال کرنے کا فیصلہ

2008 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے براک اوباما امریکا کے صدر بنے تو انہوں نے یہ عقوبت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا، اوباما کا کہنا تھا کہ گوانتانامو بے پر سالانہ 15 کروڑ امریکی ڈالر خرچ ہو رہے ہیں لہذا اس کو بند کرکے اس رقم کی بچت کی جا سکتی ہے۔

لیکن 2016 میں صورتحال یکسر بدل گئی اور ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران ہی نہ صرف گوانتانامو بے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا بلکہ اس میں مزید افراد کو قید کرنے کا بھی عندیہ دیا۔

بعدازاں صدارت سنبھالنے کے بعد ایک حکم نامے کے تحت انہوں نے سابقہ امریکی صدر باراک اوبامہ کے احکامات کو بھی معطل کردیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ’ڈینی ایواتار‘ نے اس معاملے پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کی تاریخ، غیر قانونی حراست اور انصاف کی فراہمی میں بے قاعدگی کے باعث گوانتانامو بے میں کسی نئے قیدی کو منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: گوانتانامو کا مسئلہ

خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جیمس میٹیس اور دیگر ایجنسیوں کے سربراہان کو 90 دن میں جنگی قیدیوں کی گوانتانامو بے منتقلی کے حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کرکے پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔

اس سلسلے میں امریکی حکام کا کہنا تھا کہ شام میں موجود امریکی اتحادیوں کی جانب سے قید داعش کے کارندوں کو ممکنہ طور پر اس جیل میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔

پنٹاگون چیف نے اس بارے میںن بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ گوانتانامو بے میں ایک بھی قیدی کے ساستھ جینیوا کنوینشن کی قرارداد کے خلاف کسی قسم کا سلوک نہیں کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ عبدالرحیم النشیری سمیت دیگر قیدیوں کا مقدمہ امریکا کی شہری عدالت میں چلنے کے بجائے گوانتامو بے جیل میں ہی ملٹری کمیشن نامی قانون کے تحت چلایا جاتاہے، جبکہ جیل میں 11 ستمبر کے حملے کے دیگر ملزمان سمیت ان کا مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ بھی قید ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں