اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے فنانس ڈویژن کی جانب سے ارسال سمری مسترد کردی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے کیٹیگری میں شمولیت سے بچانے کے لیے وفاقی کابینہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ (اے ایم ایل اے) 2010 کے تحت تحقیقاتی اداروں کو ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دے۔

متعلقہ ادارے کی جانب سے سمری 9 جون 2016 کو ارسال کی گئی جس میں ڈائریکٹریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (ڈی جی آئی اینڈ آئی) برائے لینڈ ریونیو کو ٹیکس چوری کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی اجازت دینے کو کہا گیا تھا لیکن نوٹیفکیشن کو لاہور ہائی کورٹ میں جنوری 2018 کو چینلج کردیا گیا جس میں کہا گیا کہ وفاقی وزارت نے وفاقی کابینہ کی تصدیق کے بغیر سمری ارسال کی۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف:’گرے لسٹ‘ میں پاکستان کا نام جون میں آئے گا، حکام کی تصدیق

فنانس ڈویژن نے کابینہ کو سمری 3 مئی کو ارسال کی لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی نگرانی میں کابینہ نے سمری پر غور کے لیے اسے لاء ڈویژن کے سپرد کردیا، جس کے نتیجے میں تاحال تاخیر برتی جاری ہے۔

واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم رواں ماہ یا اگلے ماہ کے آغاز میں پاکستان کا دورہ کرکے منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کا جائزہ لے گی۔

حکومت نے ایف اے ٹی ایف کو اپریل میں ایک رپورٹ ارسال کی تھی جس میں منی لانڈرنگ کے خلاف عالمی معیار کے مطابق اقدامات کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔

دوسری جانب وزارت فنانس کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ایشیا پیسیفک گروپ کی جانب سے تیار کردہ 40 سفارشات میں اے ایم ایل ایکٹ 2010 کو فعال کرنا بھی شامل تھا۔

مزید پڑھیں: ‘جون میں پاکستان پر گرے کے بجائے بلیک کیٹیگری کی تلوار لٹک سکتی ہے‘

اس کے علاوہ وفاقی کابینہ کی جانب سے مزید تاخیر کی صورت میں حکومت کی ایمنسٹی اسکیم بھی متاثر ہوگی جسے پہلے ہی سینیٹ میں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

ایمنسٹی اسکیم میں واضح ہے کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے کمائی گئی دولت پر اسکیم کا اطلاق نہیں ہوگا۔

ایم اے ایل ایکٹ 2010 کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب) اور انٹی نارکوٹکس فورسز منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ڈی جی آئی اینڈ آئی گزشتہ 18 ماہ میں ٹیکس چوروں سے 10 ارب روپے وصول کرچکی ہے۔

ڈی جی آئی اینڈ آئی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ‘ادارے کے اختیارات معطل کردیئے گئے ہیں اور 270 بااثر شخصیات کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس زیر التواء ہیں تاہم اب وہ اے ایم ایل ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وفاقی کابینہ اجازت نہیں دے رہی’۔

یہ پڑھیں: ‘پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی واچ لسٹ میں ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے متعلقہ افراد کی جانب سے منی لانڈرنگ کی نشاندہی کی تھی اور ان افراد کی فہرست ڈی جی آئی اینڈ آئی کو ارسال کی تاکہ تحقیقات کی جا سکے۔

وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ منی لانڈرنگ کے خلاف متحرک عالمی ٹیم پاکستان کا دورہ کررہی ہے جبکہ سمری پر وفاقی کابینہ کی تاخیر کے نتیجے میں پاکستان کا کیس بہت کمزور ہو جائے گا۔


یہ خبر 06 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں