اسلام آباد: چین کی جانب سے متعدد مرتبہ درخواست کیے جانے پر نیشنل جوڈیشل پالیسی میکینگ کمیٹی (این جے پی ایم سی) نے ملک کی اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں سے متعلق حکم امتناع جاری کرنے سے گریز کریں۔

این جے پی ایم سی کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ پر مشمل بینچ نے پلاننگ کمیشن پر زور دیا ہے کہ اگر سی پیک منصوبے پر مدد درکار ہو تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے حوالے سے عالمی برادری کو زیادہ اندازے لگانے کی ضرورت نہیں، چین

سرکاری دستاویزات کے مطابق مذکورہ فیصلہ رواں برس فروری میں این جے پی ایم سی کے خصوصی اجلاس میں کیا گیا جس میں وفاقی سیکریٹریز اور پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے پیش نظر انتہائی اہم عہدوں پر فائز افسران بھی شامل تھے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ چین کی جانب سے ہر فورم پر عدالتی حکم امتناع سے مُبرّا ہونے پر زور دیا جارہا ہے اور یقین دلایا جارہا ہے کہ چینی سرمایہ کار، ٹھیکیدار اور کاروباری افراد کے مابین تنازعات کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔

دوسری جانب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ سی پیک منصوبوں سے متعلق تنازعات کی نوعیت اور حل کے لیے تجاویز پیش کی جائیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2017 میں چین کا دورہ کیا تھا جہاں چینی صدر نے چیف جسٹس سے سی پیک منصوبوں سے متعلق تنازعات کے حل کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ بعض احساس نوعیت کے تنازعات کے لیے باقاعدہ اور مربوط نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: سی پیک کے فائدے پاکستان، چین کیلئے یکساں ہیں، احسن اقبال

اس موقع پر جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سی پیک سرمایہ کاری کے ساتھ ہی سول اور کرمنل تنازعات اٹھنے کے امکانات ہیں جس کے لیے یکساں قانون، طریقہ کار اور عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے زور دیا کہ آئی ایف سی دبئی کی طرز کا فورم تشکیل دیا جائے جو بیرونی سرمایہ کاری کے معاملات پر نظر رکھے اور سی پیک سے متعلق تنازعات کے لیے علیحدہ عدالتیں بنائی جائیں۔

سیکریٹری قانون اور جسٹس کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر محمد رحیم اعوان نے اجلاس میں بتایا تھا کہ ملک میں اس وقت 48 مشترکہ سرمایہ کاری معاہدے (بی آئی ٹی) فعال ہے جس میں چین کے ساتھ 1989 کے ساتھ کیا گیا ایک معاہدہ شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ معاہدے کی رو سے بیرونی سرمایہ کاری اور تنازعات سے متعلق کسی بھی مسئلے کو ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ کو بھیجا جاتا ہے۔

یہ پڑھیں: ‘گلگت میں سی پیک منصوبے کو 400 بھارتی تخریب کاروں سے خطرہ‘

اجلاس میں پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے سیکریٹری نے کہا کہ سی پیک دراصل 2 دوست ممالک کے مابین دوطرفہ معاہدہ ہے جس پر عملدرآمد کا سلسلہ 2013 میں مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کے بعد ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘معاہدے کا بنیادی مقصد خطے میں امن اور استحکام لانا ہے اور یاداشت میں تنازع کے حل کے لیے شق موجود ہے، کسی بھی تنازع کو دوطرفہ مشاورت کے ذریعے حل کیا جائے گا’۔

ایڈیشنل سیکریٹری برائے توانائی نے اجلاس میں بتایا کہ سی پیک منصوبے کے تحت 2 ارب ڈالر کی مالیت سے مٹھیاری سے لاہور تک 878 کلومیڑ میں ہائی والٹیج ڈائریکٹ سرکٹ کا منصوبہ حکم امتناع کا شکار ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سیکریٹری اطلاعات نے اجلاس میں بتایا کہ سی پیک منصوبے سے متعلق کوئی شکایت ان کی وزارت کو موصول نہیں ہوئی۔


یہ خبر 7 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں