کراچی: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بحریہ ٹاؤن کراچی میں زمین کی خرید و فروخت پر پڑنے والے اثرات پر رئیل اسٹیٹ کے اسٹیٹ ہولڈرز کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں زمین کی قیمتوں میں واضح کمی ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کچھ ذرائع کا کہنا تھا کہ خریداروں اور فروخت کنندگان کے درمیان نئے معاہدے کی معطلی کے بعد بحریہ ٹاؤن میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں 10 سے 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دیگر لوگوں کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل خریداروں اور فروخت کنندگان کے درمیان کیے گئے معاہدوں کو ابھی تک حتمی شکل دی جارہی ہے۔

اس حوالے سے کلفٹن میں واقع پاریکھ اسٹیٹ کے مالک عبدالوہاب پاریکھ کا کہنا تھا کہ ’خریداروں میں اس وقت تشویش پائی جاتی ہے، خاص طور ان لوگوں میں جو ابھی تک ملکیت حاصل نہیں کرسکے تھے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں بڑے سرمایہ کاروں کے بجائے زیادہ تر لوگ ’اپر مڈل کلاس‘ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

عبدالوہاب پاریکھ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمعے سے پلاٹ اور گھر کی قیمتوں میں 15 سے 20 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ نئی زمین کی لین دین تقریباً رک چکی ہے۔

اس بارے میں جب سٹی ایسوسی ایٹس کے سی ای او اور ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے رئیل اسٹیٹ پلاننگ ایںڈ ریسرچ کے نائب صدر محمد شفی جاکھوانی سے رائے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں بحریہ ٹاؤن کا کوئی ایسا خریدار یا فروخت کنندہ نہیں جو لین دین میں جمود کا شکار نہ ہو، تاہم 15 سے 20 دن قبل کیے گئے معاہدوں کی منتقلی کا عمل پیر تک جاری رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 روز میں بحریہ ٹاؤن میں پلاٹس اور گھروں کی قیمتوں میں 10 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے، تاہم بحریہ ٹاؤن کا اثر شہر کی دیگر رئیل اسٹیٹ ٹریڈنگ پر ابھی تک نہیں پڑا ہے کیونکہ 19-2018 کے بجٹ کے اعلان کے بعد سے ہی مارکیٹ سست روی کا شکار ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پڑنے والے اثرات پر ناظم آباد اسٹیٹ کے مالک زبیر رشید کا کہنا تھا کہ اس وقت بحریہ ٹاؤن میں کوئی پراپرٹی کے لیے خریدار یا فروخت کنندہ سامنے نہیں آرہا اور صرف چند روز میں قیمتیں 20 فیصد تک کمی ہوئی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کرنے والے لوئر یا مڈل کلاس لوگ نہیں تھے بلکہ یہ امیر لوگ تھے، ساتھ ہی انہوں نے درخواست کی کہ سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کے آغاز کے بعد ہونے والی سرگرمیوں اور منصوبے کو بھی دیکھے۔

اس بارے میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین عارف یوسف جیوا کا کہنا تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن اس وقت آڈٹ اور جانچ پڑتال کے عمل سے گزر رہا، جس کا سب سے زیادہ فائدہ مستقبل میں خریداروں اور فروخت کنندگان کو ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’بحریہ ٹاؤن میں خرید و فروخت کرنے والے لوگ اس وقت کافی پریشان نظر آرہے ہیں، کچھ کو یہ ڈر ہے کہ اس منصوبے کو مکمل طور پر بند کرنے کے فیصلے کی صورت میں ان کی ساری سرمایہ کاری ڈوب جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بحریہ ٹاؤن کے بڑے حصے میں خرید و فروخت رک چکی ہے جبکہ زمین اور گھر کی قیمتوں میں 20 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی: لالچ اور قبضے کا لامحدود سلسلہ

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پڑنے والے اثرات پر کلفٹن میں موجود ایک اور اسٹیٹ ایجنٹ کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کوئی شخص بھی بحریہ ٹاؤن میں خرید و فروخت کا خطرہ لینے کو تیار نہیں، تاہم صرف ان معاہدوں پر اس وقت بات چیت جاری ہے جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے دونوں فریقین معاہدے پر رضا مند ہوئے تھے۔

اس بارے میں ایک ایجنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی خریدنے والوں کے متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ قومی احتساب بیورو (نیب) الاٹیز کے بجائے بحریہ ٹاؤن کے مالکان سے بات کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے آپریٹرز کے خلاف جاری تحقیقات میں عوام متاثر نہیں ہو گی‘۔

’سب ٹھیک ہے‘

دوسری جانب بحریہ ٹاؤن میں موجود بروکرز کی جانب سے اپنے گاہکوں اور مستقبل میں آنے والے گاہکوں کو واٹس ایپ پر پیغامات بھیجے جارہے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔

ان بروکرز کی جانب سے جو پیغام گردش کررہا ہے اس میں یہ کہا جارہا ہے کہ ’ بحریہ ٹاؤن نے ایم ڈی اے سے حاصل زمین پر بہت زیادہ ترقیاتی کام کیا ہے اور یہ عوام کو الاٹ کی گئی ہیں، لہٰذا اس میں کسی تیسرے فریق کی دلچسپی کا کوئی شبہ نہیں اور عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو مزید کمرشل اور رہائشی پلاٹس فروخت کرنے سے محدود کیا ہے اور اس طرح کی سرگرمی غیر قانونی شمار ہوگی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں