کراچی: محترمہ فاطمہ جناح کی 1955 کی کیڈیلیک سیریز 62 کنورٹیبل اور 1965 کی مرسڈیز بینز 200، جو ان کے رکھوالوں کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے باعث تباہی کا شکار تھیں، کو ان کی اصل حالت میں بحال کرکے قائد اعظم ہاؤس میں منتقل کردیا گیا ہے، جسے فلیگ اسٹاف ہاؤس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ان گاڑیوں کو باضابطہ طور پر حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت کے حوالے بدھ کے روز کیا جائے گا جہاں یہ اپنے نئے گلاس کے بنے گیراج میں عوامی نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔

ونٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان کے بانی محسن اکرام، جنہوں نے ان گاڑیوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے، نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان گاڑیوں پر نمائش سے قبل تھوڑا سا مزید خوبصورتی پر کام کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: فاطمہ جناح کی گاڑیاں تباہی سے دوچار

ان کا کہنا تھا کہ فاطمہ جناح کی کیڈیلیک گاڑی پوری طرح سے تیار ہے تاہم مرسڈیز بینز کے لوگو کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’میرے حساب سے یہ 98 فیصد تیار ہے کیونکہ اب بھی اس کے آگے لگنا والا اسٹار موجود نہیں ہے۔

بحالی سے قبل گاڑیوں کی خستہ حالی — فوٹو: ڈان آرکائیوز

انہوں نے مزید کہا کہ ان گاڑیوں کی نمائش کے لیے گیراج کو قائد اعظم ہاؤس کے آرکیٹیکچر کے حساب سے بنایا گیا ہے اور اس کی تعمیر میں اس ہی پتھر کا استعمال کیا گیا ہے۔

چمکتے ہوئے قومی ورثے کو قائد اعظم ہاؤس میں لاتے ہوئے محسن اکرام نے جذباتی انداز میں کہا کہ ’میں نے ان گاڑیوں کو بچانے کے لیے 19 سال تک جدوجہد کی تھی۔

خیال رہے کہ محسن اکرام کو یہ گاڑیاں موہٹہ پیلیس کے گیراج میں ملی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا جناح کیپ کی فروخت ختم ہورہی ہے؟

1997 میں موہٹہ پیلس کی تزئین و آرائش کے کام کے وقت ان گاڑیوں کو مزدوروں کی جانب سے گیراج سے نکال کر کھلے آسمان میں چھوڑ دیا گیا تھا جبکہ مزدور اپنا کھانا اس گاڑی کے بونٹ پر بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور اس ہی دوران اس گاڑی کے کئی پرزے بھی چوری کرلیے گئے اور گاڑیاں بغیر پہیوں اور رم کے اینٹوں پر کھڑی تھیں۔

محسن اکرام نے اس حوالے سے مختلف اخبارات اور حکومت کو خطوط لکھے جس کا اثر کچھ یوں ہوا کہ حکومت سندھ نے ان گاڑیوں کو گھسیٹ کر سندھ آرکائیوز ڈپارٹمنٹ پہنچا دیا۔

تاہم بعد ازاں حکومت نے 19 جون 2016 کو ان گاڑیوں کو بحالی کے لیے محسن اکرام کے حوالے کیا۔

محسن اکرام کا کہنا تھا کہ ان گاڑیوں کی بحالی کے لیے انہیں 2 سال کا وقت لگا۔


یہ خبر 8 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں