اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جاچکی ہیں اور اب عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ معاملہ ایف آئی اے میں جانا ہے یا نیب میں جانا ہے؟ وفاقی حکومت نے آج تک فیصلے کے بعد کوئی ایکشن نہیں لیا، صرف ایف آئی اے نے تحقیقات کین لیکن ایک جگہ پر یہ تحقیقات رک گئی۔

مزید پڑھیں: اصغر خان کیس: اسلم بیگ، اسد درانی کی نظرثانی درخواستیں مسترد

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایف آئی اے سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلیتے ہیں کیونکہ عدالتی فیصلے پر مکمل عمل ہونا چاہیے، تاہم یہ نہیں معلوم کہ آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنتا ہے یا نہیں۔

دوران سماعت مرحوم اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف ایکشن اور دیگر کے خلاف تحقیقات ہوں گی۔

اس موقع پر چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجا سے مکالمہ بھی ہوا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ صبح مقدمے میں دلائل دینا اور پھر رات کو ٹی وی پر بیٹھ کر گفتگو کرنا توہین عدالت ہے، آپ کل بھی ایک مقدمے میں دلائل دے کر بعد میں ٹی وی پر گفتگو کر رہے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات سب وکلاء کے لیے ہے کہ مقدمے میں دلائل دیں لیکن شام کو ٹی وی پر گفتگو نہ کریں، اس دوران عدالت نے وکلاء کو مقدمے میں دلائل دے کر شام کو ٹی وی پر گفتگو کرنے سے روک دیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے وفاقی حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ اگر فوجی ایکٹ میں سابق فوجی افسر کے خلاف کارروائی کی شق نہ ہو تو پھر کسی اور اقدامات کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان فیصلے کی روشنی میں کارروائی کریں، ہم اصغر خان کیس پر عملدرآمد کا معاملہ حکومت پر چھوڑتے ہیں، وفاقی حکومت اس پر عمل درآمد کرے اور وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کابینہ اجلاس میں اصغر خان کیس پیش کرکے فیصلہ کریں کہ ان کے خلاف کیا کارروائی کرنی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت 2 ہفتوں کا وقت دے، اس پ رچیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہفتے کا وقت دیا جائے گا کابینہ خصوصی اجلاس بلا لے۔

یاد رہے کہ 1990 میں انتخابات میں دھاندلی کے لیے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق اس وقت کے ایئرفورس کے سربراہ اصغر خان نے اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اصغر خان کیس: ’وزیراعظم کا بیان ریکارڈ‘

بعد ازاں 2012 میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس کے باعث سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی فوج کی بدنامی کا باعث بنے تھے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔

اس کیس کے فیصلے کے بعد مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جسے گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں