پشاور ہائی کورٹ نے دہشت گردی کے الزام میں فوجی عدالت سے سزا یافتہ شخص کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے برہان الدین سمیت 11 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی۔

برہان الدین ان تین مجرمان میں شامل تھا جنہیں مردان میں ایک شہری کے جنازے کے دوران حملے میں ملوث ہونے پر فوجی عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی، حملے کے نتیجے میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن مہمِند سمیت 30 افراد ہلاک اور 100 زخمی ہوئے تھے۔

31 سالہ برہان الدین کے والد عمر دراز خان نے اپنے وکیل ضیاالرحمٰن تاجِک کے ذریعے فوجی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

وکیل ضیاالرحمٰن تاجِک نے جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس افسر شاہ پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کو بتایا کہ باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے برہان الدین کو بم دھماکے میں ملوث ہونے پر 16 جنوری 2017 کو گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالت کا 14 ملزمان کے خلاف عمر قید کی سزا کا فیصلہ معطل

انہوں نے دعویٰ کیا کہ برہان الدین ذہنی طور پر تندرست نہیں، اس کا پہلے بھی علاج ہوچکا ہے اور دوران حراست بھی اس کا علاج جاری رہا۔

ضیاالرحمٰن تاجِک کا کہنا تھا کہ برہان الدین کے اہلخانہ اس کی موجودگی کے مقام سے لاعلم ہیں اور انہیں اس کی سزا کا علم میڈیا کے ذریعے ہوا۔

درخواست گزار نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی طور پر معذور شخص کیسے دہشت گردی میں ملوث ہوسکتا ہے اور اسے کیسے سزائے موت دی جاسکتی ہے، جبکہ ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ برہان الدین کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ بےقصور ہے اور کسی دہشت گرد سرگرمی میں ملوث نہیں۔

عدالتی بینچ نے فیملی کی درخواست منظور کرتے ہوئے فوجی عدالت کے فیصلے کو معطل کردیا اور وفاقی حکومت و متعلقہ اداروں سے 15 مئی تک معاملے کی رپورٹ اور ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں