سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ڈان ڈاٹ کام سے معذرت کرلی جبکہ 20 گھنٹے بلاک رکھنے کے بعد نیوز ویب سائٹ کی پوسٹ کو پاکستانی صارفین کے لیے بحال کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق فیس بک انتظامیہ نے الزام عائد کیا تھا کہ ڈان ڈاٹ کام کی جانب سے اکتوبر 2017 میں کی گئی پوسٹ مبینہ طور پر مقامی قوانین سے متصادم تھی۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک نے ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ کو 'پاکستانی قانون کی بنیاد' پر بلاک کردیا

فیس بک کی جانب سے 11مئی کو خودکار پیغام میں کہا گیا کہ ‘آپ کے ملک میں قانونی پابندی کے باعث فیس بک پر آپ کی پوسٹ کے لیے ہمارے پاس محدود رسائی ہے’۔

ڈان ڈاٹ کام کی وہ پوسٹ جس تک صارفین کی رسائی کو محدود کردیا گیا تھا
ڈان ڈاٹ کام کی وہ پوسٹ جس تک صارفین کی رسائی کو محدود کردیا گیا تھا

موصول ہونے والے خود کار پیغام میں پوسٹ کا لنک بھی موجود تھا جس میں سابق سیاستدان جاوید ہاشمی کو عدلیہ پر تنقید کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

فیس بک نے ہفتہ کی شب ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ بحال کرتے ہوئے معذرت کی۔

فیس بک کی جانب سے خود کار پیغام میں کہا گیا کہ ‘آپ کی پوسٹ غلطی سے محدود کردی گئی تھی، ہم اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہیں اور اب پوسٹ بحال کردی گئی ہے’۔

اس سے قبل کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ خبر ‘مقامی قانون کی بنیاد پر’ عدم دستیاب ہے اور یہ اقدام غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت ریاستی اداروں کی جانب سے کی گئی درخواست پر اٹھایا جاتا ہے جس پر ماضی میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے تنقید کی تھی۔

فیس بک نے یہ واضح نہیں کیا کہ ڈان ڈاٹ کام کی خبر سے کس قانون کی خلاف ورزی ہو رہی تھی اور نہ ہی یہ واضح کیا کہ اس حوالے سے درخواست کہاں سے کی گئی تھی۔

فیس بک کی جانب سے جاری ٹرانسپرنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت نے جنوری 2017 سے جون 2017 کے دوران ڈیٹا کے لیے فیس بک کو ایک ہزار 50 درخواستیں بھیجیں تھیں، جس کے مقابلے میں رواں سال صرف 719 موصول ہوئی ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقامی قانون کے مطابق توہین اور ملک کی آزادی کے حوالے سے خلاف ورزی پر 'پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی درخواست پر 177 اسٹوریز کو پاکستانی صارفین کی رسائی کے لیے محدود کردیا گیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: فیس بک میں لوگوں کی دلچسپی میں کمی؟

خیال رہے کہ گزشتہ سال فیس بک کو اس وقت سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے تمام توہین آمیز مواد کو نہ ہٹانے کی صورت میں فیس بک پر مکمل پابندی کی تنبیہ کی تھی۔

اس پوسٹ کو بلاک کیوں کیا گیا؟

فیس بک کی جانب سے ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ کو پاکستانی صارفین کے لیے بلاک کرنے کی وجہ بظاہر توہین مذہب یا 'ریاست مخالف' تقریر نظر نہیں آتی۔

درحقیقت یہ خبر ایک سیاست دان کی جانب سے پاکستانی سیاست میں 'عدالیہ کی مداخلت' کے طور پر ابھرنے والے ایک منظرنامے سے متعلق تھی۔

کچھ حلقوں کی جانب سے 'بہت زیادہ متحرک عدلیہ' پر تنقید بڑھ رہی ہے، دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اہم شخصیات کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات چلانے کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔

یہ پڑھیں: فیس بک کے بانی معافی مانگنے پر مجبور

ایک سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو حال ہی میں اس وقت جیل جانا پڑا، جب وہ توہین عدالت کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار پائے۔

اسی طرح ملتان کے ایک رہائشی کو بھی ایک جج پر جوتا پھینکنے پر 18 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

دوسری جانب ٹی وی چینلز کو بھی ہدایت کی جاچکی ہے کہ وہ ایسی سیاسی تقاریر کو نشر نہ کریں جو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہوں جبکہ پیمرا کو بھی ناکافی اقدامات پر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ خبردار کیا جاچکا ہے۔

آئندہ انتخابات پر اس کے اثرات

کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کا معاملہ ابھی بھی چل رہا ہے اور اسی وجہ سے فیس بک نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ پاکستانی انتخابات کے حوالے سے وہ ایسے تمام اقدامات کرے گی 'جو انتخابات میں بیرونی مداخلت کی روک تھام کرسکیں'۔

تاہم فیس بک کی حالیہ سنسر شپ پالیسی، مواد کو غیر شفاف میکنزم سے ہٹانا، جیسے ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ کو فیس بک پر بلاک کیا گیا، ممکنہ طور پر صارفین کو انتخابی فیصلے کے لیے اہم معلومات تک رسائی سے محروم کرسکتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں