اسلام آباد: وزرات دفاع کی درخواست پر وفاقی حکومت نے کراچی میں تیل کی دو اہم تنصیبات پر کام کرنے والی نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز (او ایم سی) کو کام کرنے سے فوری روک دیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ مذکورہ کام کیماڑی میں جاری تھا اور او ایم سی کی جانب سے باقاعدہ اجازت اور سیکیورٹی کلیرنس حاصل نہیں کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پانچ ریگولیٹری ادارے متعلقہ وزارتوں کے ماتحت

وزارت دفاع کی جانب سے ‘غیر منظور شدہ ٹرمینل پرنجی کمپنیوں کی جانب سے جاری کام پر تحفظات کا اظہار کیے جانے پر وزارت توانائی کے ڈویژن برائے پیٹرولیم نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو معاملے کی فوری تحقیقات کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ وزارت دفاع نے آئل کمپنیز کی جانب سے سیکیورٹی کلیرنس کے بغیر کام جاری رکھنے پر گزشتہ برس فروری اور پھر جون 2017 میں مراسلہ ارسال کیا تھا۔

تاہم نجی کمپنیوں نے اپنا کام جاری رکھا جس کے بعد سیکریٹری دفاع نے رواں برس یکم مارچ کو تمام اسٹیک ہولڈرز کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور متعلقہ حکام کو باورکرا دیا کہ یہ کام اس طرح سے جاری نہیں رہ سکتا۔

مزید پڑھیں: ادویات سے متعلق کیس: ’سندھ ہائی کورٹ حکم امتناعی کی درخواستوں پر 15 روز میں فیصلہ کرے‘

جس کے نتیجے میں اوگرا نے او ایم سی (النور ٹرمینل اور ہسکول پیٹرولیم) کو ‘فوری طورپر غیرقانونی آپریشن سے روک دیا، اگر کیماڑی میں مزید کام کیا تو قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی’۔

اوگرا کے حکام نے بتایا کہ وزارت دفاع پہلی ہی شکایت درج کرا چکی تھی کہ کیماڑی میں اسٹوریج ٹرمینل پر 2 کمپنیاں وزارت دفاع سے این او سی لیے بغیر ہی کام کررہی ہیں۔

آئل اسٹوریج کی تعمیرات

حکومت نے اوگرا کو پابند کیا ہے کہ قوائد و ضوابط کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ وزارت دفاع کی جانب سے تحفظات دور کیے جا سکیں۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ‘مستقبل میں ایسی کسی پریشانی سے بچنے کے لیے تمام نئی اور پرانی کمپنیوں کو ہدایت کی جا سکتی ہے کہ اسٹوریج ٹرمینل پر ترقیاتی کام شروع کرنے سے پہلے تمام کمپنیاں وزارت دفاع سے این او سی حاصل کرنے کی پابند ہوں گی‘۔

این او سی کے حصول میں تاخیر

انہوں نے بتایا کہ ‘بعض صورتحال میں او یم اسی کو ریگولیٹر کی جانب سے محدود اجازت ہوتی ہے کیوں کہ وزارت دفاع میں این او سی کے حصول میں بہت وقت برباد ہوتا ہے’۔

یہ پڑھیں: ریگولیٹری اتھارٹیز کے اختیارات کا مسئلہ

ذرائع نے بتایا کہ ‘ریگولیٹری اتھاڑی نے اسٹوریج کی تعمیرات کے لیے حتمی اجازت نہیں دی تھی’۔

دوسری جانب او ایم سی حکام نے حکومت پر زور دیا کہ این او سی کے حصول کے لیے وزارت دفاع کے تعاون سے ایک مربوط نظام بنایا جائے جس میں وقت کا تعین کیا جائے تاکہ تاخیر سے بچا جاسکے۔


یہ خبر 14 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں