اسلام آباد: سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے بدتمیزی کرنے پر توہین عدالت کا سامنا کرنے والے پولیس افسران میں سے ایک کے وکیل نے 9 مارچ 2007 کو سابق چیف جسٹس کو چند گھنٹوں کے لیے گرفتار کیے جانے کے خلاف بھی اس ہی طرح کی کارروائی کرنے کا مطالبہ کردیا۔

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) جمیل ہاشمی کے وکیل محمد ابراہیم ستّی نے سپریم کورٹ کے بینچ کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے پیش کیا گیا حلف نامہ پڑھ کر سنایا جس کے ساتھ انہوں نے سابق چیف جسٹس کی پرویز مشرف کے خلاف پٹیشن بھی پڑھ کر سنائی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک فوجی آمر پرویز مشرف نے 4 فوجی افسران کے ہمراہ ان سے راولپنڈی میں صدر کے کیمپ آفس میں استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کا کہا تھا اور انہیں 5 گھنٹے تک تحویل میں لے کر جھنڈے کے بغیر گاڑی میں جانے کی اجازت دی۔

مزید پڑھیں: افتخار چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست

وکیل کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔

تاہم 5 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ کے رکن جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ عدالت میں نہیں لایا گیا اور جب یہ معاملہ آئے گا تو عدالت اس پر فیصلہ کرے گی کہ کیا کرنا ہے‘۔

نگراں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جو بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں، نے حیرت کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس کو اتنی آسانی سے نکال دیا گیا کیونکہ سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس کے احکامات تھے جبکہ یہ کام صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ عدالت نے وفاقی انتظامیہ کے سابق سینئر ممبران کی جانب سے 13 مارچ 2007 کو اس وقت کے چیف جسٹس کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر دائر اپیلوں پر سماعت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افتخار چوہدری نے اپنی سیاسی جماعت بنالی

ان اپیلوں کو یکم نومبر 2007 کے سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر جسٹس افتخار چوہدری کو سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال پر وضاحت دینے کے لیے عدالت عظمیٰ کی جانب مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد کے اعلیٰ حکام اور پولیس اہلکاروں کی ان سے بدسلوکی کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔

تاہم اس اعلان کے فوری بعد ملزمان کی جانب سے اپیل دائر کیے جانے کی گزارش پر سزا کو 15 دن کے لیے منسوخ کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد کے سابق چیف کمشنر خالد پرویز اور ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد علی کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سنائی گئی تھی اور سابق انسپیکٹر جنرل پولیس چوہدری افتخار احمد اور ایس ایس پی ظفر اقبال کو 15 دن جیل اور ڈی ایس پی جمیل ہاشمی، انسپیکٹر رخسار مہدی اور اے ایس آئی محمد سراج کو ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بعد ازاں 10 رکنی بینچ نے متعلقہ محکموں پر ملزمان کے خلاف اپیلوں کے زیر التواء ہونے تک کارروائی کرنے سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: جدہ ایئرپورٹ پر افتخار چوہدری کے صاحبزادے کی 'بحث'

وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے بارہا گزارش کیے جانے کے باوجود سابق چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ تک پیدل سفر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیف جسٹس کو پولیس افسران کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ یہ ان ہی کی حفاظت کے لیے کیا جارہا ہے اور انہیں پیدل نہیں جانا چاہیے کیونکہ تمام اطراف وکلاء دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔

وکیل نے مزید کہا کہ اس وقت کے آئی جی پی نے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی کی موجودگی میں بلوچستان ہاؤس میں بدسلوکی پر معافی مانگی تھی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ یہ معاف نہ کیے جانے والا جرم ہے اور ججوں کے ساتھ بد سلوکی برداشت نہیں کی جائے گی۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت کو آئندہ منگل تک کے لیے ملتوی کردیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 15 مئی 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں