اسلام آباد: زرعی پیداوار کے بارے میں لگائے جانے والے تمام اندازے اس بگڑتی صورتحال کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ پانچ سالوں میں پہلی مرتبہ خریف کی فصل خشک سالی سے متاثر ہوسکتی ہے، محکمہ موسمیات اور زراعت سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ بوائی کے موسم کے آخری 4 ہفتوں میں پانی کی کمی میں 52 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی مشاورتی کمیٹی کے بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں یہ جائزہ لیا گیا کہ گزشتہ ماہ شروع ہونے والی بوائی کے موسم میں پانی کی کمی 42 فیصد تک جا پہنچی، جو اس سے قبل لگائے گئے اندازے سے کہیں زیادہ ہے اور یہ اندازہ 31 فیصد تھا۔

نتیجتاً 10 جون تک جاری رہنے والے خریف کے بقیہ عرصے میں صوبوں کو جراتمندانہ اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنے پانی کے حصے میں کمی کرنی پڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں: تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح انتہائی کم ہوگئی

واضح رہے کہ ملک کی زراعت میں خریف کی فصلیں عام طور پر اچھی پیداوار دیتی ہیں جن میں گندم، گنا اور کپاس کی فصلیں شامل ہیں کیوں کہ گزشتہ 5 سالوں میں ان فصلوں نے اتنے شدید پانی کے بحران کا سامنا نہیں کیا۔

ارسا کے چیئرمین احمد کمال کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر صوبوں کی جانب سے 31 فیصد پانی کی کمی کے حساب سے حصہ لیا گیا تو بوائی کے موسم میں ان کے حصے کے پانی میں مزید کمی کرنا پڑے گی۔

خیال رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں خریف کی فصل کا موسم اپریل تا جون میں شروع ہو کر اکتوبر سے دسمبر تک جاری رہتا ہے اور خریف کی اہم فصلوں میں چاول، گنا، کپاس، اور مکئی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: پانی کی ہنگامی صورت حال، سندھ اور اداروں میں تلخ جملوں کا تبادلہ

ارسا کے اجلاس میں پاکستان کے محکمہ موسمیات کے عہدیدار نے بتایا کہ رواں ماہ کے دوران اور جون کے پہلے ہفتے تک موسم خشک رہنے کی توقع ہے اور مون سون کا آغاز جون کے وسط میں ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا۔

ارسا کے اجلاس میں چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندوں سمیت وفاق کے نمائندے بھی شریک تھے جس میں پنجاب کی جانب سے کوٹری اور تونسہ بیراج میں پانی کی کمی پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

اجلاس میں شامل تمام نمائندوں نے ہنگامی بنیادوں پر نئے ڈیمز کی تعمیر کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی پہلی آبی پالیسی مشکلات میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟

بلوچستان کی جانب سے کی گئی شکایت پر حکومت سندھ نے بلوچستان کو درپیش پانی کی کمی کے معاملے پر فوری طور پر اقدامات اٹھانے پر زور دیا اور اس ضمن میں بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان اپنے انفراسٹرکچر کی وجہ سے پانی کی کمی سے مستثنیٰ ہیں کیوں کہ انہیں پانی کی کمی کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں صوبوں کے لیے مختص پانی کا پورا حصہ فراہم نہ کیا جائے۔

آئندہ دنوں میں متوقع بارشوں کے پیش نظر ارسا نے ریگولیشن کے منصوبوں میں تبدیلی کرتے ہوئے پانی کے بہاؤ کی بنیاد پر صوبوں کے حصے میں اضافہ کردیا، جس کے بعد پنجاب میں پانی کا حصہ 56 سے بڑھ کر 64 ہزار کیوسک، سندھ کا 43 سے بڑھا کر 55 ہزار کیوسک کردیا گیا جبکہ بلوچستان کا 5 ہزار کیوسک اور خیبر پختونخوا کا 3 ہزار ایک سو کیوسک مختص کیا گیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 16 مئی 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں