اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال کی برطرفی کے لیے دائر کی جانے والی درخواست خارج کردی۔

درخواست جسٹس جاوید اقبال کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے خلاف دائر کی گئی تھی، جس میں انہوں نے نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت میں 4.9 ارب ڈالر بھیجے جانے کے الزامات کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔

مذکورہ پٹیشن پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مقامی رہنما نور محمد کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت داخل کی گئی تھی، جس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے نیب کی جانب سے پریس ریلیز جاری کیے جانے کی تحقیقات کا حکم دے کیونکہ اس پریس ریلیز نے نہ صرف نواز شریف بلکہ نیب کی شہرت کو بھی نقصان پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں؛ نواز شریف کے خلاف 4.9 ارب ڈالر بھارت منتقل کرنے پر تحقیقات کا آغاز

تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے پٹیشن یہ کہتے ہوئے خارج کردی کہ درخواست گزار نے اس ضمن میں کسی ماتحت عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے براہ راست سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے اور اپنے اس عمل کی وجوہات بھی پیش کرنے سے قاصر رہے۔

پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ نواز شریف پر بھارت میں منی لانڈرنگ کا الزام لگانے پر چیئرمین نیب کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کے احکامات جاری کریں۔

خیال رہے کہ نواز شریف پر لگائے گئے ان الزام سے ملکی سیاست میں بھونچال آگیا تھا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی جانب سے چیئرمین نیب کو نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نوازشریف پر منی لانڈرنگ کا الزام، نیب چیئرمین قائمہ کمیٹی میں طلب

پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ بغیر کسی ثبوت کے نواز شریف کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر نیب جیسے ادارے کے لیے نقصان کا باعث بننے کے سبب، جسٹس جاوید اقبال غیر جانبدار رہ کر اپنے عہدے پر کام نہیں کرسکتے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں نواز شریف پر لگائے گئے منی لانڈرنگ کے الزامات پر چیئرمین نیب نے نہ صرف نوٹس لیتے ہوئے ورلڈ بینک کے قوانین کا ذکر کیا بلکہ نواز شریف کے خلاف تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم اگلے ہی روز اسٹیٹ بینک نے اس دعویٰ کو حقائق سے متضاد ہونے کی بنا پر مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'نواز شریف کا مقصد چئیرمین نیب کو دباؤ میں لانا ہے'

درخواست میں کہا گیا کہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا تشخص محفوظ کرنے اور پاکستانی عوام کا اداروں پر اعتماد بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے سوا کوئی متبادل، پراثر اور تیز رفتار حل نہیں تھا۔

پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ الزام پر مبنی پریس ریلیز جاری کرنے کا عمل بدنیتی پر مبنی تھا اور نیب جیسے ادارے کو اس طرح چلایا جانا ٹھیک نہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 17 مئی 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں