مشکپوری ٹاپ: قدرت سے قربت کا ناقابلِ بیان تجربہ

مشکپوری ٹاپ: قدرت سے قربت کا ناقابلِ بیان تجربہ

عائشہ علی

فطرت بھی کتنی سخی ہوتی ہے ہر فرد کو بلاتفریق اپنا حسن دکھاتی ہے، کوئی پردہ نہیں رکھتی نہ ہی اتراتی ہے، قدرت کی رعنائیاں دیکھنے کی تھوڑی سی سعی کرنے پر بھی حیرتوں کی مثالیں آپ سامنے آجائیں گی۔ شہروں کا تو یہ حال ہے کہ کانکریٹ کے جنگل میں قدرت کے رنگ تو دکھائی ہی نہیں دیتے، بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ شہر میں ہم لوگوں نے اس قدر ماحولیاتی آلودگی پیدا کردی ہے کہ قدرت کے رنگ ہی ہم سے روٹھ چکے ہیں، اور روٹھے کو منانے کے لیے خود ہی اس کے پاس جانا ہوتا ہے لہٰذا میں نے قدرت سے قربت پانے اور اس کی سخاوت دیکھنے کے لیے اسلام آباد اور پھر اس سے آگے جانے کا فیصلہ کیا۔

شہر کی یکسانیت سے بھرپور زندگی کو کچھ دن کے لیے بریک دیا اور کراچی سے اسلام آباد کی فلائیٹ پکڑی۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے ساتھ ہی فیس بک پر ایونٹس کا جائزہ لیا تو موبائل فون کی اسکرین پر لاہور کے ایک ٹؤر گروپ کا نام جگمگاتا نظر آیا جو علی الصبح مشکپوری کی طرف روانہ ہو رہا تھا، یوں لگا کہ قدرت خود مجھ سے شدت سے ملنے کی خواہش کررہی ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے قسمت نے بھی خوب ساتھ دیا اور میں مناسب پیسوں کے عوض اس گروپ کا حصہ بن گئی۔

گروپ کے سنگ اسلام آباد سے 100 کلو میٹر کا سفر طے کرکے ہم مشکپوری پہنچے۔ ضلع ایبٹ آباد کے نتھیا گلی ہلز میں واقع مشکپوری گلیات کا دوسرا بڑا پہاڑ ہے، جو سطح سمندر سے 9 ہزار 452 فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کی خوبصورت چوٹی پر ہر سال ہزاروں سیاح سیر کرنے آتے ہیں۔

اب مجھے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے کمر کسنی تھی، وہاں پہنچنے کے 2 ٹریکس ہیں، ایک نتھیا گلی میں شنگریلا ہوٹل سے شروع ہوتا ہے اور اس کا فاصلہ 4 کلو میٹر ہے، جو پائن کے درختوں کا لحاف اوڑھے دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ دوسرا ٹریک ڈونگا گلی سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے چوٹی تک کا ٹریک تقریباً ڈھائی سے 3 گھنٹوں میں مکمل کیا جاسکتا ہے، اور ہم نے یہی راستہ چنا۔

یہ ٹریک ابتدائی طور پر تو کافی آسان معلوم ہوتا مگر آگے جانے پر تھوڑی بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نتھیا گلی کے ٹریک کے مقابلے اس راستے پر زیادہ ڈھلوانیں ہیں، اور اس راستے کی ایک چھوٹی سی خرابی یہ بھی ہے کہ اس پورے راستے میں ایک بھی دکان یا باتھ روم نہیں، ہاں البتہ ٹریکرز کے آرام کرنے کی جگہیں ضرور موجود ہیں۔ ٹریک کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہاں موبائل کے سگنل بحال رہتے ہیں۔

مشکپوری تک پہنچنے کے دو ٹریک ہیں—تصویر عائشہ علی
مشکپوری تک پہنچنے کے دو ٹریک ہیں—تصویر عائشہ علی

مشکپوری ٹاپ—تصویر عائشہ علی
مشکپوری ٹاپ—تصویر عائشہ علی

مشکہوری ٹاپ کا ایک خوبصورت منظر—تصویر عائشہ علی
مشکہوری ٹاپ کا ایک خوبصورت منظر—تصویر عائشہ علی

ٹریک پر پائن کے بلند و بالا درختوں نے جگہ جگہ قدرتی چھتیں بنادی ہیں، جو ٹریکرز کو نہ صرف سورج کی تپش سے بچاتی ہیں بلکہ خراب موسم میں اولوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔

برسا برس کی تاریخ کے شاہد ان درختوں کی جڑیں اتنی پھیل گئی ہیں کہ زمین سے باہر نکل آئی ہیں جو برسات کے وقت ٹریک کی مٹی کی پھسلن کو کسی حد تک کم کردیتی ہیں اور ٹریکرز کو چڑھنے اور اترنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

چوٹی تک پہچنے کی تگ و دو میں آسمان چھونے کی خواہش تو پوری نہیں ہوپاتی البتہ بادلوں کا لمس ضرور نصیب ہوتا ہے۔ ٹریکنگ پر چلتے جائیں تو ایک وقت آتا ہے کہ جب دھند سی نظر آنے لگتی ہے، دراصل وہ دھند نہیں بادل تھے، لیکن جب ہم مزید اوپر چلے گئے تو بادل نیچے ہی رہ گئے۔

مشکپوری ٹاپ کے خوبصورت نظارے اور پانی کا ایک چھوٹا تالاب—تصویر عائشہ علی
مشکپوری ٹاپ کے خوبصورت نظارے اور پانی کا ایک چھوٹا تالاب—تصویر عائشہ علی

چوٹی تک پہچنے کی تگ و دو میں آسمان چھونے کی خواہش تو پوری نہیں ہوپاتی البتہ بادلوں کا لمس ضرور نصیب ہوتا ہے—تصویر عائشہ علی
چوٹی تک پہچنے کی تگ و دو میں آسمان چھونے کی خواہش تو پوری نہیں ہوپاتی البتہ بادلوں کا لمس ضرور نصیب ہوتا ہے—تصویر عائشہ علی

مشکپوری اسلام آباد سے تقریبآ 100 کلومیٹر دور ہے—تصویر عائشہ علی
مشکپوری اسلام آباد سے تقریبآ 100 کلومیٹر دور ہے—تصویر عائشہ علی

ٹریکنگ شروع کرنے سے پہلے اپنے ساتھ چھتری یا رین کوٹ ضرور رکھیں کیوں کہ مشکپوری پر کبھی بھی بادل نمودار ہوسکتے ہیں اور برسات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ٹریکنگ شروع کیے ہمیں ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ بادل کسی بھولے بھٹکے مسافر کی طرح آئے اور برسنا شروع ہوگئے، یوں ٹریکنگ کا مزہ دوبالا ہوگیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑی ہی دیر بعد ٹھنڈ سے کپکپی طاری ہوگئی۔

واپسی کے سفر پر تو اولے بھی برسنے لگے، جس کے باعث زمین کافی پھسلن بھری ہوگئی تھی سو احتیاط برتنا لازمی ہوگیا۔

بارش میں بھیگے پائن کے بے شمار درخت دل کو بھانے لگے تھے اور انہیں دیکھ کر روح تک تازگی کا احساس پیدا ہو رہا تھا۔ یہاں فطرت کا حسن چہارسوں پھیلا تھا اور میں اس کی دلکشی سے خوب محظوظ ہو رہی تھی۔

ٹریکنگ کے دوران جب بھی ٹؤر گائڈ سے پوچھا کہ ابھی کتنا سفر باقی ہے تو جواب آتا کہ بس 10 منٹ، یوں ہم نے 4 کلومیٹر کا یہ سفر صبح 11 بجے مکمل کرلیا۔

اس بلندی پر پہنچ کر آپ کے سامنے خوبصورت نظارے ہوتے ہیں اور ان نظاروں کو دیکھ کر ایسی کئی ٹریکنگ قربان کرنے کو جی چاہتا ہے. سچ پوچھیے تو اوپر پہنچ کر ٹریکنگ کی تمام تھکاوٹ جیسے بالکل دور ہی ہوگئی. سبزہ اوڑھے یہ چوٹی اپنے اندر ایک تازگی اور فطری حسن رکھتی ہے اور شہروں کی مصروف زندگی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب کبھی برف پڑتی ہے تو یہ چوٹی سفید چادر سی اوڑھ لیتی ہے، بلاشبہ وہ حسن بھی کچھ کم نہ ہوگا۔

مشکپوری ٹاپ پر پہنچ کر آپ کے سامنے خوبصورت نظارے ہوتے ہیں—تصویر عائشہ علی
مشکپوری ٹاپ پر پہنچ کر آپ کے سامنے خوبصورت نظارے ہوتے ہیں—تصویر عائشہ علی

سبزہ اوڑھے مشکپوری ٹاپ اور پائن کے درخت—تصویر عائشہ علی
سبزہ اوڑھے مشکپوری ٹاپ اور پائن کے درخت—تصویر عائشہ علی

مشکپوری ٹاپ اور قدرت سے قربت—تصویر عائشہ علی
مشکپوری ٹاپ اور قدرت سے قربت—تصویر عائشہ علی

مشکپوری ٹاپ کا ایک خوبصورت سفر—تصویر عائشہ علی
مشکپوری ٹاپ کا ایک خوبصورت سفر—تصویر عائشہ علی

چوٹی پر موجود پانی کا ایک چھوٹا تالاب قدرت کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس میں سبز درختوں اور آسمان کو منعکس ہوتا دیکھ افسانوی دنیا میں پہنچنے کا گمان ہوتا ہے۔ تاحدِ نظر سبزہ ہی سبزہ تھا اور تو اور وہاں سے خیبر پختونخوا کے مشرقی حصے اور کشمیر کا حسن بھی دکھائی دے رہا تھا۔

قدرت کے ایک رنگ سے میری ملاقات ہوچکی تھی، بلاشبہ یہ میری زندگی کے بہترین بریکس میں سے ایک تھا، کچھ دیر ٹھہر کر نظاروں سے لطف اندوز ہوئے اور قدرت سے اس قربت کا قرار حاصل کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دلفریب نظاروں سے دل بھرتا ہی نہ تھا، لیکن میرے اندر سے آواز آئی کہ زندگی کا یہ بریک اب زیادہ طویل نہیں ہوسکتا، لہٰذا سیلفیوں اور تصاویر کھینچنے کا ایک طویل دور چلا اور آخر میں واپسی کے سفر کا آغاز ہوگیا۔

اگرچہ واپسی کے سفر میں بھی بارش اور اولے مستقل برس رہے تھے لیکن اس کے باوجود ہم جلد نیچے اتر گئے کیونکہ ہم نے نہ رکنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور تمام تر مشکل کے باوجود ٹریکنگ جاری رکھی اور شام ہونے سے پہلے اترائی مکمل کرلی اور اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگئے۔

اگر آپ کا بجٹ کم ہے اور فطرت میں کھوکر خود کو تازہ دم کرنا چاہتے ہیں تو مشکپوری کی ٹریکنگ بہترین انتخاب ہوگا۔

چند تجاویز ان سیاحوں کے لیے جو میری طرح مشکپوری کا حسن دیکھنا چاہتے ہیں:

• چوٹی پر ٹریکنگ کا آغاز صبح کے وقت کریں تاکہ دن ڈھلنے سے پہلے نیچے اترا جاسکے کیونکہ ٹریک پر روشنی کا انتظام نہیں ہے۔

• وہ لوگ جو پہلی بار ٹریکنگ پر جا رہے ہیں وہ اپنے ساتھ ہائیکنگ اسٹک ضرور رکھیں۔

• ٹریکنگ پر جانے سے قبل چھتری یا رین کوٹ کا انتظام کرلیں۔

• یہ ٹریکنگ مقامی گائیڈ کے بغیر بھی کی جاسکتی ہے۔

• جو افراد ٹریکنگ کی تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے وہ بذریعہ گھوڑا اوپر پہنچ سکتے ہیں، جو وہاں مناسب کرائے پر دستیاب ہوتے ہیں۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کی اسٹاف ممبر ہیں اور سیر و سیاحت کا شوق رکھتی ہیں۔