رائٹرز فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔
رائٹرز فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔

ایسا ہوگا، نہیں ہوگا- ضرور ہوگا، نہیں ہوگا-

روز قیامت کی پیشن گوئی کریں تو آپ ایک ایسے مایوس انسان قرار دے جائیں گے جو اس بات سے انکاری ہے کہ پیمانہ اب لبریز ہونے کے قریب ہے- استحکام کی بات کریں تو آپ کو ایسا گاودی سمجھا جاۓ گا جس نے مال بردار ٹرین کو اپنی طرف آتے ہوے نہیں دیکھا-

ایک بہت ہی عجیب بات ہوئی ہے- عسکری جارحیت ایک طرف- جی ہاں، اسے تو بلکل ایک طرف کر دیں- استحکام، جمہوری اور سیاسی استحکام، لگتا ہے پاکستان میں چاروں طرف سے پھوٹ پڑا ہے- جب کہ اس کے چاروں طرف دنیا جیسے اندر ہی اندر ڈھیتی جا رہی ہے-

دو سال پہلے، سب اس بات سے متفق تھے کہ عربی انقلاب، یہاں ممکن نہیں ہے- کیوں کہ یہ ہوگا کس کے خلاف؟ پاکستان کے پاس اپنے آمروں، مطلق العنان حکمرانوں اور احمقوں کو نکال باہر کرنے کا بہت اچھا ریکارڈ ہے- ہمیں کسی تلقین یا تحریک کی ضرورت نہیں، بہت بہت شکریہ-

اور اس نکتے کو ثابت کرنے کے لئے طاہر القادری منظر عام پر آۓ- اور انتہائی شاندار طریقے سے ناکام ہو گۓ- لیکن پھر ترکی میں جو کچھ ہوا، پھر برازیل اور ایک بار پھر مصر میں جو کچھ ہوا، اور سوال نے تھوڑا سا لیکن معنی خیز انداز میں اپنا رخ بدل لیا ہے-

کیا ہوگا اگر نظام، ادارتی استحکام کی طرف کھسکنا شروع ہو جاۓ- جیسا کہ پاکستان میں ہو رہا ہے- لیکن کیا یہ اتنی کم رفتار کے ساتھ، لوگوں کی نظام سے ناراضگی کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے؟

اگر یہ کہنا ممکن ہے کہ یہاں کا نظام، لوگوں کی امداد سے زیادہ، انکو مایوس کر رہا ہے، اگر نظام میں تھوڑی بہت ہی سہی، بہتری آ رہی ہے، تو کیا اتنی دیر ہو گئی ہے کہ کسی تباہی کو ہونے سے روکا جا سکے؟

ویسے بھی، بنیادی عنصر تو یہاں پہلے ہی سے موجود ہے- بٹے ہوے لوگ- شہری اور دیہاتی، لینڈ کروزر کے مالکان بمقابلہ ٹوٹی ہوئی چپلوں والے مفلوک الحال، سچے ماننے والے اور ثقافتی مذہبی، علاقائی خودمختاری کے حامی اور وفاق کے حامی، جہاد پرست بمقابلہ مادیت پرست-

اب ان میں دو اور بڑی مشکلات کا اضافہ کر لیجیے، ایک تو یہ، کسی کو نہیں معلوم کہ اس تقسیم کا تناسب کیا ہے-

جی ہاں، یہاں امیر اور غریب ہیں، عسکریت پسندوں کے ہمدرد اور مستحکم ریاست کے حامی، لوگ جن کے پاس انتخاب کا اختیار ہے اور جن کے پاس نہیں ہے- لیکن ہر ایک میں کتنے لوگ ہیں؟

تناسب ضروری ہے ان دو ڈراونے مگر کارآمد الفاظ کے لئے- فیصلہ کن موڑ اور اس کے محرکات- الیکشن کے دوران بلوچستان میں اس نکتے کی کسی حد تک بگڑی ہوئی مثال پیش کی گئی-

پہلا الیکشن جس میں اعتدال پسندوں نے یہ جانچا کہ راۓ دہندگان کتنے پانی میں ہیں، جب سے صوبہ شورشوں کی گرفت میں آیا ہے یہ پہلے موقع تھا جب عوامی ہمدردیوں کے رخ کا اندازہ لگایا گیا-

اعتدال پسندوں کو مضبوط مینڈیٹ مل جاتا ہے تو اس کا مطلب صوبہ پوری طرح ہاتھ سے نہیں نکلا ہے- اعتدال پسندوں کی مات ہوتی ہے تو اسکا مطلب لوگوں نے نظریہ پاکستان سے نظر پھیر لی ہے-

آخر میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا کہ راۓ دہندگان نے کس فریق کو زیادہ ووٹ دیے ہیں- بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں الیکشن اتنے غیر واضح اور غیر منظم تھے- لیکن اس بات کے اشارے ملے ہیں کے اعتدال پسندوں نے میدان ہار دیا ہے-

تو ناراض علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں کا کیا تناسب بنتا ہے؟ کیا بلوچستان میں کھیل شروع ہو چکا ہے؟ کون جانے- لیکن یہ بات یقینی ہے کہ حالات اچھے دکھائی نہیں دے رہے-

مسئلہ نمبر 2- جو لوگ یہاں کے انچارج ہیں انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ قومی انقسام کی چھکڑا گاڑی میں کون کہاں فٹ ہوتا ہے، اور اس حوالے سے کیا کرنا ہے، اس کا بھی انہیں بہت کم سراغ ہے-

ایک سیاسی قیادت جو ایک ایسی سوسائٹی کی نمائندگی کر رہی جس کی اسے کوئی سمجھ نہیں، اور ایک فوجی قیادت جو سوسائٹی میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کے اثرات سے علیحدہ ہے، یہ دونوں ایک غیر مربوط، فیصلہ ساز ڈھانچہ بناتے ہیں-

اس مسئلے کی مثال، تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات پر سادہ لوحی ہے- ہو سکتا ہے، اور شاید، پی ایم ایل-این اور عمران خان کے پاس ناقابل مصالحت سے صلح کی تلقین کی دیگر وجوہات موجود ہوں- لیکن ایک امیدوار، واضح حد تک لاعلم کیوں کر ہو سکتا ہے؟

شریف گروپ پنجاب اور اس کو لاحق خدشات سے واقف ہیں اور بہت عرصہ پہلے ان خدشات میں دوسروں کو شریک کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں- لیکن کیا نواز شریف، بیت الله کے حکیم اللہ یا منگل باغ کے کسی فضل اللہ کے درمیان فرق بتا سکیں گے؟

اور پچھلے پانچ سال کے دوران، اسلام آباد میں پی ایم ایل-این اپوزیشن میں بیٹھی رہی، اور اس طرح لوپ سے باہر رہی- اب پارلیمنٹ مکمل طور پر اس بات سے لاعلم ہے کہ کس طرح فاٹا، پاکستان اور افغانستان میں مشکلات پیدا کر رہا ہے-

آج کا پاکستان سنہ 1999 کے پاکستان سے بہت مختلف ہے جس کی قیادت نواز شریف نے کی تھی-

عمران خان کا معاملہ اس سے بھی بدتر ہے- اصلیت میں انہیں کسی چیز سے نمٹنا نہیں پڑا- آج کے پاکستان سے متعلق جو قریب ترین تعلیم انہیں ملی ہے، وہ جنرل پاشا کی مبینہ سیاسی تربیت ہے- اور باقی کام خان صاحب کو خود ہی کرنا تھا، اور جیسا کہ کہا جاتا ہے، نیم حکیم، خطرہ جان-

اب اگر، ان سیاست دانوں کو، خطرات کا نہ اندازہ ہے اور نہ ہی سمجھ ہے، تو پھر وہ ان کے لئے موثر اقدامات کیسے کر سکتے ہیں؟

عسکریت پسندوں کو بھول جائیں، سیاست دانوں کو تو ان راۓ دہندگان کی ہی سمجھ نہیں جو انہیں ووٹ دیتے ہیں- پی ایم ایل-این پنجاب میں اپنی جیت پر حیران رہ گئی- تحریک انصاف نے خیبر پختون خواہ میں اپنی قسمت کو تسلیم کر لیا-

وہ کریں گے، لوگ ضرور بھڑکیں گے-

وہ نہیں کریں گے، حفاظتی بند بہت سارے ہیں، اور فیصلہ کن موڑ ابھی بہت دور ہیں-

جب بھی یہاں طاقتی فسادات ہوتے ہیں، جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں- جنوری اور فروری میں شیعہ کا قتل، مطلب ملک گیر احتجاج- لیکن شیعہ ابھی بھی مر رہے ہیں اور جو زندہ ہیں انہوں نے ابھی لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر احتجاج نہیں کیا ہے-

بجٹ میں ایک غیر منصفانہ اور ناواجب ٹیکس نظام لاگو کر دیا گیا- پیٹرول سٹیشن اور مقامی بازاروں میں لوگ، مائکروفون پر تھوڑا بڑبڑاۓ اور بس- خان کے آگ بگولا چاہنے والوں کا یہ ماننا تھا کہ الیکشن ان سے چرا لئے گۓ، لیکن جلد ہی انہوں نے اپنے کاندھے اچکاۓ اور اپنی زندگیوں میں مگن ہو گۓ-

تاہم، کچھ بھی واقعی ٹھیک نہیں ہے- ملک میں گھوم پھر کر دیکھیں- اپنے ایس ایم ایس کا جائزہ لیں، ٹیلی ویژن دیکھیں، ویب پر سرچ کریں- باہر بہت بیچینی اور غصّہ ہے- اچھی اور بری وجوہات کی بنا پر، کسی ایک یا بہت سی وجوہات کی بنا پر، اصلی یا اختراعی وجوہات کی بنا پر، یہ سب باہر موجود ہے اور یہ سب حقیقی ہے-

اور پھر ایک دن، ہو سکتا ہے، یہ وہ، ان کا، ایک ست رنگا امتزاج یا کوئی گھلا ملا امتزاج، ان میں سے کچھ، بہت سے، یا شاید تمام، یہ فیصلہ کرلیں کہ اب بہت ہو گیا-

اور اگر ایسا دن آیا، اور یہ بلکل واضح ہے کہ آخر کار ایسا دن آۓ گا- لوگ اثبات میں سر ہلائیں گے اور کہیں گے، ہاں، یہ تو ہونا ہی تھا-

اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ کسی کو معلوم نہیں ہو گا کہ اس حوالے سے کیا کرنا ہے-


مصنف سٹاف کے ممبر ہیں

ترجمہ ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں