اسلام آباد: سابق وزیرِ خارجہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے نااہلی فیصلے کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کرلی گئی۔

عدالتِ عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کردیا جس کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ 21 مئی کو کرے گا۔

خواجہ آصف نے اپنے وکیل منیر اے ملک کے ذریعے سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کرا دیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ بطور رکنِ اسمبلی ملازمت کرنے پر کوئی آئینی یا قانون پابندی نہیں۔

انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے قانون کی غلط تشریح کی، کیونکہ یو اے ای کا قانون فریقین کو باہمی شرائط طے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دے دیا

سابق وزیرِ خارجہ نے موقف اپنایا کہ عدالتِ عالیہ نے جن نکات پر نااہلی کا فیصلہ دیا وہ درست نہیں ہیں، اور کاغذات نامزدگی میں اپنا پیشہ کاروبار بتانا غلط نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے جواب کے ذریعے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’میری آمدن کا بڑا حصہ ذاتی کاروبار سے ہے، اور میری ملازمت کے مقابلے میں آمدن کم ہے‘۔

عدالت کو موصول جواب میں بتایا گیا کہ خواجہ آصف کی کاروبارسے آمدن 92 لاکھ اور ملازمت سے 32 لاکھ ہے، اور کاغذات نامزدگی میں خواجہ آصف کی تنخواہ 9 ہزار درہم بتائی گئی ہے۔

جواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ سابق وزیرِ خارجہ کی 62 لاکھ 80 ہزار غیرملکی آمدن میں تنخواہ کے 32 لاکھ شامل تھے، کاغذات نامزدگی میں تنخواہ کا نہیں واجبات اور اثاثوں کا پوچھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف نے نااہلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

خواجہ آصف کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کے دبئی کے اکاؤنٹ میں کبھی کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی، اور بند اکاؤنٹ کو ظاہر نہ کرنا کوئی غلط بیانی نہیں ہے۔

جواب میں یہ بھی موقف اپنایا گیا کہ دبئی کے اکاؤنٹ کو ظاہر نہ کرنا غیرارادی غلطی تھی جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا گیا، تاہم غلطی کا ادراک ہونے پر اکاؤنٹ اثاثوں میں ظاہر کردیا گیا۔

خواجہ آصف کی جانب سے یہ بھی استدعا کی گئی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ حکم امتناع جاری کرے، تاہم اس درخواست کو خارج کردیا گیا۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی جانب سے 11 اگست 2017 کو خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دینے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: خواجہ آصف کی نااہلی فیصلے کے خلاف اپیل، تمام فریقین کو نوٹسز جاری

پی ٹی آئی رہنما کی درخواست میں الزام عائد گیا تھا کہ خواجہ آصف نے متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں ملازمت کے معاہدے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کی تفصیلات 2013 کے انتخابات سے قبل ظاہر نہیں کیں اس لیے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے مستحق نہیں۔

بعدِ ازاں 26 اپریل 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا۔

02 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے اپنی نااہلی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

07 مئی کو سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی نااہلی کے فیصلے کو روکنے کی اپیل ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں