بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں بم دھماکے میں 5 پولیس اہلکار ہلاک اور 2 زخمی ہوگئے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام کا کہنا تھا کہ دھماکا صبح 11 بجے ہوا جس میں پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جو چولنرکے علاقے سے کراندول جارہی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہلاک ہونے والوں میں 3 اہلکاروں کا تعلق چھتیس گڑھ آرم فورس اور 2 کا تعلق دانتی والا کی ضلعی پولیس سے تھا۔

دوسری جانب این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ واقعے میں 6 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ دھماکا خیز مواد کو آئی ای ڈی ڈیوائس کی مدد سے اڑایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت: ماؤ باغیوں کا حملہ، 24 کمانڈوز ہلاک

این ڈی ٹی وی کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب سیکیورٹی اہلکار سرچ آپریشن میں مصروف تھے۔

ادھر پولیس حکام نے دعویٰ کیا کہ واقعے کے بعد ماؤ باغی پولیس اہلکاروں کا اسلحہ لے کر فرار ہوگئے۔

24 اپریل 2017 کو بھارت کے وسطی علاقے میں مبینہ ماؤ باغیوں نے پیرا ملٹری فورسز کے کمانڈوز پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 24 اہلکار ہلاک اور 6 شدید زخمی ہوگئے تھے۔

اس سے قبل 12 مارچ 2017 کو بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں ماؤ نواز باغیوں کے حملے میں 11 اہلکار ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے تھے۔

2 فروری 2017 کو جنوب مشرقی بھارت میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ وسطی اور مشرقی ہندوستان کے جنگلات میں ماؤ باغیوں اور حکومت کے درمیان مسلح کشیدگی طویل عرصے سے جاری ہے۔

یاد رہے کہ ماؤ باغی، جن کا کہنا ہے کہ وہ قبائلی افراد اور بے زمین کسانوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، کے ممکنہ طور پر اخراجات بھتہ وصولی سے پورے ہوتے ہیں۔

ہندوستان کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے ماؤ باغیوں کی بغاوت کو ملک کی داخلی سیکیورٹی کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لوگ غریبوں کے لیے زمین، نوکری اور دیگر حقوق کے لیے لڑرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان: ماؤ باغیوں کا حملہ، 13 سیکورٹی اہلکار ہلاک

واضح رہے کہ ماؤ باغی بھارت کی کم سے کم 20 ریاستوں میں سرگرم ہیں، جن میں چھتیس گڑھ، اڑیسہ، بہار، جھارکھنڈ اور مہارشٹرا کی ریاستیں سر فہرست ہیں۔

ہندوستان میں 1960ء سے جاری ماؤ باغیوں کی بغاوت میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ناقدین نے حکومت کی جانب سے ماؤ باغیوں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال پر تنقید کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ اس تنازع کو بہتر حکمرانی اور خطے میں ترقی کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں